دنیا

امریکا میں جنوری کے دوران مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر رہنے کا امکان

قیمتوں میں تیزی لانے والے عوامل بڑی حد تک اپنی جگہ پر موجود ہیں جبکہ اجرتیں کم از کم 20 سالوں میں تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔

امریکی صارفین کے آزادانہ طور پر پیسے خرچ کرنے اور بہت ساری سپلائی چینز کی جانب سے قیمتوں میں اضافے نے سالانہ بنیادوں پر ہونے والے اضافے کے باعث جنوری میں مہنگائی مزید چار دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق قیمتوں میں تیزی لانے والے عوامل گزشتہ موسم بہار سے بڑی حد تک اپنی جگہ پر موجود ہیں جبکہ اجرتیں کم از کم 20 سالوں میں تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔

گزشتہ ماہ متاثر رہنے والی ملک کی مصروف ترین بندرگاہیں لاس اینجلس اور لانگ بیچ، جہاں سیکڑوں مزور کام کرتے ہیں وہ بندرگاہیں اور گودام کام کے بوجھ تلے دبے رہے۔

اس کے باعث بہت ساری مصنوعات اور پرزوں کی سپلائی کم رہی اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ محرک چیک اور دیگر حکومتی امداد کی میعاد ختم ہونے سے ابھی تک امریکیوں کی خریداری کی بھوک کم نہیں ہوئی ہے۔

ڈیٹا فراہم کرنے والے ادارے 'فیکٹ سیٹ' کے مطابق ماہرین اقتصادیات نے پیش گوئی کی ہے کہ جب لیبر ڈیپارٹمنٹ جنوری کے مہنگائی کے اعداد و شمار رپورٹ کرے گا تو یہ ظاہر کرے گا کہ اشیا کی صارفین کے لیے قیمتیں 12 ماہ پہلے کے مقابلے میں 7.3 فیصد بڑھ گئی ہیں۔

مہنگائی کی یہ رفتار دسمبر میں سالانہ رفتار سے 7.1 فیصد زیادہ ہوگی اور فروری 1982 کے بعد اس طرح کا سب سے بڑا اضافہ ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی دوسرے اعداد و شمار یہ ظاہر کرسکتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کا عمل سست ہونا شروع ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کی مہنگائی سے متعلق سوال پر صحافی کو ’گالی‘

جب دسمبر سے جنوری تک کی پیمائش کی جاتی ہے تو صارف کے لیے مہنگائی کی شرح مسلسل تیسرے مہینے میں کم ہو سکتی ہے۔

اقتصادی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ دسمبر سے جنوری کے دوران قیمتوں میں 0.4 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ نومبر سے دسمبر تک 0.6 فیصد اور اکتوبر سے نومبر تک 0.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔

40 سالوں میں سال بہ سال کی تیز ترین مہنگائی نے زیادہ تر امریکیوں کے لیے تنخواہوں میں اضافے کا فائدہ ختم کر دیا ہے، جس سے وہ خوراک، گیس، کرایہ، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات کو برداشت کرنے کے کم قابل رہے۔

مہنگائی، معیشت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے عنصر کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ مہنگائی صدر جو بائیڈن اور کانگریس کے ڈیموکریٹس کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، کیونکہ اس سال کے آخر میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں۔

فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے انتہائی کم شرح سود کی پالیسیوں سے تیزی سے دوری اختیار کر لی ہے۔

جیروم پاول نے دو ہفتے قبل اشارہ دیا تھا کہ مرکزی بینک ممکنہ طور پر اس سال اپنی بینچ مارک قلیل مدتی شرح میں کئی بار اضافہ کرے گا، جس میں پہلا اضافہ یقینی طور پر مارچ میں آئے گا، جبکہ سرمایہ کاروں نے 2022 کے لیےکم از کم پانچ مرتبہ قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ شرح قرضوں کی ایک وسیع رینج کے لیے لاگت کو بڑھا دے گی، گروی اور کریڈٹ کارڈز سے لے کر گاڑیوں اور کارپوریٹ کریڈٹ تک کے لیے تمام قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے خدشہ ہے کہ صارفین اور کاروباروں کے لیے کریڈٹ کو مسلسل سخت کرنا ایک اور کساد بازاری کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جوبائیڈن کی صدارت کے ایک سال میں ہی ان کے حامی مایوس

کئی بڑی کارپوریشنز نے سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک کانفرنس کال میں کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ سپلائی کی کمی اس سال کے کم از کم دوسرے نصف تک برقرار رہے گی، فوڈ چین چیپولے سے لیوائز تک کی کمپنیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ 2021 میں اضافے کے باوجود ایک مرتبہ پھر اس سال قیمتوں میں اضافہ کریں گی۔

فوڈ چین کمپنی چیپولے کا کہنا ہے کہ اس نے بڑے جانور کے گوشت اور نقل و حمل کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ ساتھ ملازمین کی زیادہ اجرت کو پورا کرنے کے لیے اپنی اشیا کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے۔

ریسٹورنٹ چین کا مزید کہنا ہے کہ اگر مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہی تو وہ قیمتوں میں مزید اضافے پر بھی غور کرے گی۔

کمپنی کے چیف فنانشل افسر جان ہارٹنگ کا کہنا تھا کہ ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ بڑے جانور کے گوشت کی قیمت اوپر کی سطح پر جارہی ہے اور پھر نیچے بھی آئے گی، مگر ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔

چیپولے کے ساتھ ساتھ اسٹاربکس اور کچھ دیگر صارفین سے براہ راست ڈیل کرنے والی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ ان کے صارفین اب تک زیادہ قیمتوں سے پریشان نظر نہیں آتے۔

لیوی اسٹراؤس اینڈ کمپنی نے مزدوری سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث گزشتہ سال قیمتیں 2019 کی سطح سے تقریباً 7 فیصد تک بڑھائی ہیں اور اس سال دوبارہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قیمتیں بڑھانے کے باوجود سان فرانسسکو میں قائم کمپنی نے 2022 کے لیے اپنی سیلز کی پیش گوئی کو مزید بڑھایا ہے۔

کمپنی کے سی ای او چِپ برگ نے تجزیہ کاروں کو بتایا کہ ابھی ہر وہ سگنل جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ مثبت ہے۔

بہت سے چھوٹے کاروبار، جن کے منافع کا مارجن عام طور پر بڑی کمپنیوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور وہ اپنی تنخواہوں میں بڑے اضافے کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ بھی قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر جو بائیڈن کا 2024 کے انتخاب میں دوبارہ حصہ لینے کا امکان

ایک تجارتی گروپ نیشنل فیڈریشن فار انڈیپنڈنٹ بزنس (این ایف آئی بی) کا کہنا ہے کہ اس کے ماہانہ سروے کے مطابق جنوری میں 61 فیصد چھوٹی کمپنیوں نے اپنی قیمتوں میں اضافہ کیا، جو 1974 کے بعد سے سب سے بڑا تناسب ہے اور وبائی مرض سے پہلے یہ تناسب صرف 15 فیصد تھا۔

این ایف آئی بی کے چیف اکانومسٹ بل ڈنکلبرگ نے کہا کہ زیادہ تر چھوٹے کاروباری مالکان نے نئے سال کا آغاز قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ کیا تاکہ کاروبار پر آنے والی لاگت کو آگے بڑھایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے مسائل کے علاوہ مالکان قابل ملازمین کو اپنے خالی اسامیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ریکارڈ معاوضے کی پیش کش بھی کر رہے ہیں۔

پچھلے ایک سال کے دوران گیس، خوراک، کاروں اور فرنیچر کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے نے اکثر امریکیوں کے بجٹ کو متاثر کیا ہے۔

دسمبر میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے وارٹن بزنس اسکول کے اقتصادی ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ گھرانوں کو 2020 کے مقابلے میں اتنی ہی مقدار میں سامان اور خدمات خریدنے کے لیے مہنگائی کے باعث اوسطاً 3 ہزار 500 ڈالر اضافی خرچ کرنے پڑے ہیں۔

حکومت اور اسٹیک ہولڈرز میں ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے نقد سبسڈی پر اتفاق

سام سنگ کے گلیکسی ٹیب ایس 8 سیریز کے 3 ٹیبلیٹس پیش

پی ایس ایل سیزن 7 میں اب تک کے اعداد و شمار