ملک میں غربت کی بڑی وجہ ملک میں 2 خاندانوں کی حکمرانی ہے، وزیر اعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں غربت کی بڑی وجہ گزشتہ 30 سالوں سے ملک میں دو خاندانوں کی حکمرانی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بننا ہے جس سے ملک کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا اور ہزاروں شہری مارے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان کا فودان یونیورسٹی چین کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایرک لی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ 'بطور وزیراعظم پاکستان میری پہلی ترجیح اپنے ملک کے عوام ہیں، مجھے اندازہ ہے لوگوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، ملک میں غربت کی بڑی وجہ گزشتہ 30 سالوں سے ملک میں دو خاندانوں کی حکمرانی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بننا ہے جس سے ملک کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا اور ہزاروں شہری مارے گئے'۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا منشور ملک میں قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کا قیام ہے، ملک کرپشن سے غریب ہوتے ہیں، سیاست میں آنے کا فیصلہ ملک کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانے کے لیے کیا تھا، جو ملک طاقتور لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لاتے وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر ایرک لی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا، میری پارٹی کا منشور ملک کو فلاحی ریاست بنانا اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے، جن ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہ ملک بنانا ریپبلک بن جاتے ہیں، جو ملک طاقتور لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لاتے وہ تباہ ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ ٹاٹا، برلا کی جگہ شریف اور زرداری امیر ہو جائیں'
پاک ۔ چین تعلقات اور سی پیک سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیوں پاک ۔ چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) سے متعلق شبہات پائے جاتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری ترحیح ملک کی معیشت کو بہتر اور مضبوط کرنا اور لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے اور اس مقصد کے لیے ہم چین کو ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ جیو اکنامکس اور معاشی ترقی کے لیے سی پیک بہت اہم منصوبہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں بھارت کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، جب حکومت بنائی تو ہماری ترجیح بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا تھی، پاکستان کا بھارت کے ساتھ بڑا تنازع کشمیر کا مسئلہ ہے جبکہ پاکستان، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے مگر بدقسمتی سے بھارت کا ردعمل مثبت نہیں ہے۔'
افغانستان سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ امریکیوں نے افغانستان کی تاریخ نہیں پڑھی اور جو تاریخ سے نہیں سیکھتا وہ نقصان اٹھاتا ہے، ایسا ہی امریکا کے ساتھ ہوا، جو افغانستان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ کبھی ایسا اقدام نہیں کریں گے جو امریکا نے کیا، میں افغانستان کی تاریخ جانتا ہوں، پہلے دن سے افغانستان میں امریکی مداخلت کے خلاف تھا۔
مزید پڑھیں: اگر حکومت سے باہر نکل آیا تو زیادہ خطرناک ہوں گا، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد افغانستان میں امریکا کا مشن ختم ہوجانا چاہیے تھا، پہلے دن کہا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، افغانستان میں امریکا کے مقاصد واضح نہیں تھے، اگر مقاصد واضح نہ ہوں تو ناکامی ہوتی ہے، افغانستان کے عوام غیر ملکی حکمران قبول نہیں کرتے، افغان عوام آزاد خیال لوگ ہیں، وہ بیرونی حکمران کو نہیں مانتے۔
وزیراعظم عمران خان کا پاک امریکا دوستی سے متعلق سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ امریکا بھی ہمارا اچھا دوست ہے لیکن چین جیسا نہیں ہے، کبھی امریکا ہمارا دوست بن جاتا ہے لیکن جب اسے لگتا ہے کہ اسے پاکستان کی ضروت نہیں یا پاکستان ابھی کسی کام کا نہیں تو وہ ہمیں تنہا چھوڑ دیتا ہے، اور پھر جب ضرورت ہوتی ہے تو دوبارہ ہمارا دوست بن جاتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات پر وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایسا بھی وقت تھا جب پاکستان کے امریکا سے دوستانہ تعلقات تھے اور جب پاکستان کی ضرورت نہ رہی تو امریکا نے پاکستان سےدوری اختیارکرلی، بعد میں امریکا اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات بحال ہوگئے۔
چین اور امریکا کے تعلقات سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا ایک اور کولڈ وار کی متحمل نہیں ہوسکتی، اگر چین اور امریکا کے درمیان مثبت مسابقتی تعلقات ہوں تو پوری دنیا کو اس سے فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یقین ہے کہ کرپشن سے ہی ملک غریب اور پسماندہ ہوتے ہیں، اسی مقصد کے لیے میں نے 22 سال محنت اور جدوجہد کی، یہ بہت بڑا چیلنج تھا، مگر چیلنج کو قبول نہ کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور 22 سال کی جدوجہد کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کھیل کے میدان سے ریٹائر ہونے کے بعد سب سے پہلے ملک میں ہسپتال بنایا، کیونکہ اُس وقت پاکستان میں کینسر کا کوئی ہسپتال نہیں تھا، اس کے بعد میں میں لوگوں سے فنڈز جمع کرکے 2 یونیورسٹیاں بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہسپتال اور یونیورسٹیاں کمرشل مقاصد کے لیے نہیں ہیں، یہ فلاحی مقصد کے لیے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غربت اور مالی مسائل کے باعث معیاری طبی سہولیات اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔