پاکستان

نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں خارج

اسلام آباد سیشن کورٹ میں ایک درخواست آئی جی کے خلاف، دوسری جائے وقوع کے مقام اور تیسری موبائل کی اونرشپ معلوم کرنے کے لیے تھی۔

نور مقدم قتل کیس میں عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے دائر کی جانے والی تینوں درخواستیں خارج کردیں۔

اسلام آباد کی سیشن عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت کی جس میں ملزم کی جانب سے دائر تین درخواستوں پر فریقین نے دلائل دیے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

اس سلسلے میں ایک درخواست آئی جی کے خلاف، دوسری جائے وقوع کے مقام جبکہ تیسری موبائل کی اونرشپ معلوم کرنے کے لیے تھی۔

مدعی مقدمہ کے وکیل نثار اور بابر حیات سمور نے مرکزی ملزم کی جانب سے دائر درخواستوں پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جائے وقوع کا وزٹ سائٹ پلان میں گرین ایریا اور جنگل ایریا منشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو سائٹ پلان بنایا گیا وہی نقشہ اسکیل میں بھی منشن ہے، دوران تفتیش 24 جولائی کو مقتولہ کا موبائل برآمد کا سائٹ پلان بنایا وہ بھی منشن ہے، فرد جرم پر جو کوائف دیے گیے اس میں بھی گرین ایریا منشن ہے۔

موبائل فون کی ملکیت کے حوالے سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ سی ڈی آر ڈیٹا میں لوکیشن اس بات کو کنفرم کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

اس سلسلے میں کہا گیا کہ اس سٹیج پر 540 کی درخواست دینے کا مقصد صرف مقدمے میں توسیع چاہنا ہے، مقدمے میں اس موبائل نمبر کا ذکر ہی نہیں لہٰذا اس اسٹیج پر ملزم کی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔

اس کے علاوہ آئی جی کے خلاف درخواست پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے سامنے آئی جی احسن یونس نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، اب پولیس کی جانب سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی جائے گی۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور مرکزی ملزم کے وکیل شہریار نواز خان نے درخواستوں پر دلائل مکمل کیے۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ ہماری پہلی درخواست سم کی ملکیت سے متعلق ہے، مدعی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ نمبر اس کی اہلیہ کوثر کے نام پر ہے، دیے گے نمبر کا ریکارڈ منگوا لیں اور یہ نمبر کسی اور کے نام پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری درخواست آئی جی احسن یونس کے خلاف ہے، آئی جی نے 25 جنوری کو عدالتی سماعت کے بعد آفیشل ٹوئٹر پر وضاحت دی، پراسیکیوٹر کا موقف ہے اس پر کسی کے سائن نہیں۔

مزید پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: چاقو پر ظاہر جعفر کےفنگر پرنٹس نہیں، تفتیشی افسر

اس پر جج عطا ربانی نے ریمارکس دیے کہ یہ وضاحت عدالتی کارروائی پر نہیں بلکہ میڈیا کی غلط رپورٹنگ پر دی گئی۔

جج کے ریمارکس پر ملزم کے وکیل نے استفسار کیا کہ اگر زیر سماعت مقدمے میں میڈیا غلط رپورٹنگ کرتا تو کیا آئی جی وضاحت دے سکتا ہے۔

وکیل شہریار نواز خان نے کہا کہ تیسری درخواست نقشہ کے متعلق ہے، جائے وقوع کا جو نقشہ بنایا ہے اس میں غلط چیزیں شامل کی گئی ہیں، نقشہ میں گھر کے پیچھے رہائشی علاقہ دکھایا گیا ہے جبکہ وہاں پر جا کر دیکھیں وہ جنگل کا علاقہ ہے۔

وکیل نے استدعا کی کہ جج صاحب کے پاس اختیار ہے لہٰذا جائے وقوع کا معائنہ کیا جائے۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے تین درخواستوں پر مدعی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت سے تینوں درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزم کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں مسترد کردیں۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر کی عدالت میں حاضری لگا دی گئی اور ملزمان کو ایڈشنل سیشن جج کے سامنے پیش کرکے بخشی خانہ بھیج دیا گیا۔

عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 9 فروری تک ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعدازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

دوسری جانب 14اکتوبر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تھی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

مسلز کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں؟ تو 3 سیکنڈ کا یہ آسان طریقہ اپنالیں

’قبر سے ٹوئٹ کر رہا ہوں‘، علی گل پیر کا موت کی خبر پر رد عمل

پاک-افغان سرحد پر برفانی تودہ گرنے سے 19 افراد جاں بحق