’شاید کراچی کنگز کے لیے لاہور میں بھی واپسی کرنا مشکل ہی ہو‘
کراچی میں کھیلے جانے والے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 کے 14ویں میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کراچی کنگز کو شکست دے دی، اور یوں کراچی میں ہونے والے میچوں میں کراچی کنگز کو کلین سوئپ کا سامنا ہوگیا، اور اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کراچی کا اگلے مرحلے میں جانا اب مشکل ہی دکھائی دے رہا ہے۔
کل کھیلے گئے میچ میں شاداب خان اس پی ایس ایل کے وہ پہلے کپتان بنے جنہوں نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ اس سے قبل پی ایس ایل کے 13 میچوں میں ٹاس جیتنے والی ٹیمیں پہلے فیلڈنگ کا ہی فیصلہ کرتی آئی تھیں۔
اسلام آباد کی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں تھی جبکہ کراچی کی ٹیم نے باؤلنگ میں 2 تبدیلیاں کیں۔ عامر یامین کی جگہ کرس جارڈن کو شامل کیا گیا اور عمران خان جونئیر کی جگہ عثمان شنواری ٹیم کا حصہ بنے۔
اسلام آباد کے دونوں اوپنرز نے ایک بار پھر اچھا آغاز فراہم کیا اور پاور پلے میں 53 رنز بنائے۔ کل جس وکٹ پر میچ ہو رہا تھا وہ ہرگز بیٹنگ کے لیے آسان نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ایک سلو وکٹ تھی اور رنز بنانے آسان نہیں تھے۔ شاید اسی لیے پہلے 6 اوورز میں 53 رنز بنانا ایک بہترین آغاز تھا۔
8ویں اوور میں ایلکس ہیلز 30 رنز بناکر عماد وسیم کے ہاتھوں باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہوئے تو اس وقت اسلام آباد کا اسکور 66 رنز تھا۔
اس کے بعد 10ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر محمد نبی نے اپنا آخری میچ کھیلنے والے پال اسٹرلنگ کو 39 رنز پر کلین بولڈ کردیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ پی ایس ایل کے اس سیزن میں یہ پال اسٹرلنگ کا آخری میچ تھا کیونکہ وہ اپنی ٹیم آئیرلینڈ کو عمان میں جوائن کریں گے جہاں ٹی20 مقابلے کھیلے جانے ہیں۔
اب بیٹنگ کے لیے اِن فارم کپتان شاداب آئے تو انہیں بھی احساس ہوچکا تھا کہ یہ وکٹ آسان نہیں اور اس پر رنز آسانی سے نہیں بنیں گے۔ شاداب خان نے ایک بار پھر کولن منرو کے ساتھ مل کر نہایت ہی سمجھ داری سے 55 رنز کی بہترین شراکت داری قائم کی، انہوں نے 19 گیندوں پر 34 رنز کی اننگ کھیلی اور ہر لوز بال کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔
کولن منرو نے 33 گیندوں پر 33 رنز بنائے۔ اسلام آباد کی جانب سے آصف علی کو بیٹنگ میں پروموٹ کیا گیا کہ تیزی سے رنز بنائے جاسکیں، لیکن آصف علی صرف ایک چھکا لگا کر پویلین لوٹ گئے۔ پھر اعظم خان اور فہیم اشرف نے اسلام آباد کا اسکور 177 رنز تک پہنچایا۔ اعظم خان 16 رنز کی مختصر لیکن مفید اننگ کھیل کر اننگ کی آخری بال پر آؤٹ ہوئے جبکہ فہیم اشرف نے بھی ایک چھکے کی مدد سے 7 رنز بنائے۔
اس وکٹ پر 177 رنز بہترین ٹوٹل نظر آرہا تھا۔ یہ ہدف 150 تک بھی روکا جاسکتا تھا اور کراچی کے باؤلرز نے اگرچہ گزشتہ میچوں کی نسبت اچھی باؤلنگ بھی کی لیکن کچھ غلطیوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔
تینوں مقامی باؤلر عماد وسیم، عمید آصف اور عثمان شنواری نے کفایتی باؤلنگ بھی کی اور ایک ایک وکٹ بھی حاصل کی، کرس جارڈن کا پہلا اوور کافی مہنگا ثابت ہوا لیکن بعد میں انہوں نے اچھی واپسی کی اور 36 رنز دے کر 2 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ البتہ محمد نبی اور لیوس گریگوری کافی مہنگے ثابت ہوئے۔
ہدف کے تعاقب میں شرجیل خان دوسرے ہی اوور میں رن آؤٹ ہوگئے اور پھر 5ویں اوور میں محمد وسیم نے بابر اعظم کو کلین بولڈ کرکے کراچی کنگز کی کمر توڑ دی۔ یوں شروع ہوا 'تُو چل میں آیا' والا کھیل اور کراچی کے 8 کھلاڑی 83 رنز کے مجموعی اسکور پر ہی پویلین لوٹ گئے۔
شاداب خان نے ایک بار پھر بیٹنگ کے بعد باؤلنگ میں بھی اپنی ٹیم کو فرنٹ سے لیڈ کیا اور صرف 15 رنز دے کر 4 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ شاداب خان اس پی ایس ایل میں اب تک 14 وکٹیں حاصل کرکے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بن چکے ہیں۔
محمد نبی اور عمید آصف نے آخری 6 اوورز میں 52 رنز کی شراکت قائم کرکے کراچی کا اسکور 135 رنز تک پہنچایا۔ محمد نبی نے ناقابلِ شکست 47 رنز بنائے اور عمید آصف 10 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے لیکن کراچی کا اسکور 135 تک ہی پہنچا سکے۔ اس طرح اسلام آباد نے 42 رنز سے یہ میچ جیت کر پوائنٹس ٹیبل پر تیسری پوزیشن پر قبضہ جما لیا جبکہ کراچی کنگز پوائنٹس ٹیبل پر سب سے آخری نمبر پر براجمان ہے۔
کراچی کنگز کی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ میں جس بُری طرح ناکام ہوئی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اب لگتا یہی ہے کہ لاہور میں بھی واپسی کرنا بہت مشکل ہوگا۔
کراچی کی باؤلنگ تو ناکام ہو ہی رہی تھی لیکن اب بیٹنگ میں بھی بڑی خامیاں نظر آرہی ہیں۔ اوپننگ جوڑی کے بعد مڈل آرڈر میں ایسا کوئی بلے باز نظر نہیں آرہا جو ٹیم کو سہارا دے سکے، بینچ پر بھی کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جو کراچی کو اس منجدھار سے نکال سکے۔ اب لگتا یہی ہے کہ کراچی کی ٹیم لاہور پہنچ کر بھی دوسری ٹیموں کے لیے ترنوالہ ہی ثابت ہوگی۔
لکھاری کا کھیلوں کے ساتھ بچپن ہی سے گہرا تعلق ہے۔ خود کھیلتے بھی رہے ہیں اور اس حوالے سے معلومات بھی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔