ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی اراکین اسمبلی سمیت 14 ملزمان کے خلاف چالان پر فیصلہ محفوظ
کراچی کی مقامی عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں نامزد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے دو اراکین اسمبلی سمیت 14 ملزمان کے خلاف جمع کرائے گئے حتمی چالان پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر الطاف حسین کی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی جہاں کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے جمع کرائے گئے حتمی چالان پر فریقین نے دلائل دیے۔
مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس نے دوماہ کی طویل تاخیر کے بعد حتمی چالان جمع کردیا
واضح رہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے مقدمے میں پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، ان کے 7 ملازمین اور گارڈ کو نامزد کر دیا تھا۔
انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزمان نے ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو رکن اسمبلی کے عرب دوستوں کو شکار سے روکنے پر اغوا کیا اور تشدد کرکے قتل کیا۔
مقتول 27 سالہ ناظم جوکھیو سٹیزن جرنلسٹ اور انیمل رائٹس کے کارکن تھے اور ان کی لاش ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس سے برآمد ہوئی تھی۔
حتمی چالان پر دلائل دیتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل مظہر جونیجو نے کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 190 کے تحت درخواست دی کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کرلی جائیں۔انہوں نے دلائل دیے کہ ملزمان کی جانب سے کیا گیا جرم دہشت گردی کے ذمرے میں آتا ہے کیونکہ ناظم جوکھیو کا قتل عوام میں خوف اور بے چینی پھیلانے کے لیے کیا گیا تھا۔
وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تفتیشی افسر کو ایف آئی آر میں انسداد دہشت ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 شامل کرنے کا حکم دے۔
انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کیس سے اغوا کی دفعات ختم کردی ہیں اور 6 نامزد ملزمان کو کیس بری کردیا ہے، جبکہ ان کو بھی چارج شیٹ میں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 بھی کیس میں شامل ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت میں حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی گئی
دوسری جانب وکیل صفائی مصطفیٰ مہیسر اور وزیر کھوسو نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی کہ مقدمہ دہشت گردی کی حدود میں نہیں آتا۔
انہوں نے جج سے مذکورہ درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
حتمی چالان
خیال رہے کہ تفتیشی افسر نے 28 جنوری کو دو ماہ کی طویل تاخیر کے بعد حتمی چالان عدالت میں جمع کرادیا تھا۔
تفتیشی افسر نے حتمی چالان میں زیر حراست پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اوایس، ان کے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے 8 ملازمین پر ناظم جوکھیو کو رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں تشدد کرکے قتل کرنے کی فرد جرم عائد کی تھی۔
عبوری چالان میں پی پی پی کے دونوں قانون سازوں اور ان کے 21 ملازمین اور گارڈز کو 3 نومبر 2021 کوملیر میں واقع فارم ہاؤس میں ناظم جوکھیو کے اغوا، تشدد اور قتل پر نامزد کیا تھا۔
تفتیشی افسر نے حتمی چالان میں گرفتار رکن صوبائی اسمبلی جام اویس پر ناظم جوکھیو کے قتل کا الزام عائد کردیا ہے اور ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 کے تحت مقدمے میں نامزد کردیا ہے۔
اسی طرح مفرور ملزم رکن قومی اسملبی عبدالکریم اور ان کا ملازم نیاز سالا پر اغوا، مقتول کے اہل خانہ کو دھمکانے اور ثبوت چھپاتے ہوئے غلط ثبوت پیش کرنے کا ملزم قرار دیا تھا جو تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 بی، 34 اور 35 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔
حتمی چالان میں مزید تین مفرور ملزمان محمد معراج، عطا محمد اور زاہد کو دفعہ 201 کے تحت ثبوت مٹانے اور جھوٹی معلومات دینے کا ملزم قرار دیا تھا۔
تفتیشی افسر نے حتمی چالان میں رکن قومی اسمبلی عبدالکریم، نیاز سالار، معراج، عطا محمد اور زاہد کو مفرور ظاہر کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: حتمی چالان جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت
انہوں نے پی پی سی کی دفعات 365 اور 109 واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ تفتیش کے دوران مقتول کے اغوا کے ثبوت نہیں ملے تاہم دوسرے ملزم جمال احمد عرف جمال کو دفعہ 506 بی کے تحت ملزم قرار دیا۔
تفتیشی افسر نے چالان میں کہا تھا کہ 6 ملزان بشمول محمد خان جوکھیو، اسحٰق جوکھیو، سلیم سالار، محمد سومار سالار، دودا خان عرف دودو جوکھیو، احمد خان شورو اور ریمانڈ پر موجود عبدالرزاق جوکھیو کے خلاف ثبوت نہیں ملے، اسی لیے ان کے نام خارج کردیے گئے ہیں۔
انہوں نے 17 افراد کو پراسیکیوشن کے گواہوں کے طور پر نامزد کر دیا تھا۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ '2 نومبر کو ارباب شیخ اپنے ملازمین غلام حیدر جوکھیو، میر حسن بروہی اور سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے افسر احمد خان شورو کے ساتھ شکار کے لیے گیا اور جب ناظم الدین جوکھیو اور عبدالعزیز سے ملاقات ہوئی جو موٹر سائیکل پر جنگل سے واپس گھر کی طرف آرہے تھے'۔
انہوں نے بتایا تھا کہ 'ناظم جوکھیو نے ارباب شیخ سے شکار کے اجازت نامے سے متعلق سوال کیا جس پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور ناظم جوکھیو نے فیس بک پر لائیو نشر کیا تو ارباب شیخ نے ان سے موبائل چھین لیا'۔
مزید پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر محکمہ وائلڈ لائف کے عہدیدار احمد شورو، غلام حیدر جوکھیو اور میر حسن بھی دوسری گاڑی میں وہاں پہنچے اور ارباب شیخ کی ہدایت پر انہوں نے ناظم کو موبائل واپس کردیا۔
تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ جام برادرز نے اس واقعے کو اپنے لیے بے عزت کے طور پر لیا لہٰذا انہوں نے افضل جوکھیو پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بھائی کو ارباب شیخ کی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کریں اور ان سے معافی بھی مانگیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ناظم جوکھیو نے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے باجود ان کی ایک نہ سنی۔
چالان میں انہوں نے کہا کہ 'اس کے برعکس ناظم جوکھیو نے فیس بک پر ایک اور ویڈیو جاری کی جہاں انہوں نے بتایا انہیں پہلی والی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے'۔
عدالت کو انہوں نے بتایا تھا کہ 'عبدالکریم کی ہدایات پر ملزم نیاز سالار اور محمد سومار سالار اور ان کے بہنوئی دودو سالار نے ناظم اور افضل جوکھیو کو کار نمبر (اے ٹی ایکس-223) میں ان کی مرضی سے جام ہاؤس لایا'۔
ان کا کہنا تھا کہ راستے میں ناظم گاڑی سے اتر کر اپنے گھر چلاگیا جہاں سے انہوں نے اپنے دوست وکیل مظہر جونیجو کو وائس مسیج کردیا، جس میں انہوں نے کہا کہ 'جام عبدالکریم کے لوگ انہیں لینے کے لیے آئے تھے'۔
یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل میں نامزد پانچ ملزمان احاطہ عدالت سے فرار
تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ جام عبدالکریم نے فارم ہاؤس میں مقتول ناظم جوکھیو کو تھپڑ مارا، موبائل فون اٹھالیا اور ارباب شیخ کی ویڈیو کلپس ڈیلیٹ کردی اور پھر ناظم کو اپنے گارڈز میر علی اور حیدر علی کے حوالے کیا، جنہوں نے ان کو گارڈ کے کمرے میں منتقل کیا جبکہ افضل کو گھرجانے کی اجازت دے دی۔
ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 'جام اویس اس وقت نشے میں تھے اور گارڈ کے کمرے میں گئے جہاں انہوں نے گارڈز میر علی اور حیدر علی کے ساتھ ناظم جوکھیو پر تشدد کی اور پھر ان کو چھوڑ دیا'۔
تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ ناظم جوکھیو شدید تشدد کی وجہ سے دم توڑ گئے جس کے بارے میں جام عبدالکریم کو معلوم ہوا اور انہوں نے پولیس کو ایسا ظاہر کیا کہ ناظم جوکھیو جام ہاؤس میں لڑائی کے دوران جاں بحق ہوگیا۔
جس کے بعد جج نے حتمی چالان پر کوئی حکم دیے بغیر کیس پر وکیل صفائی اور شکایت کنندہ کے وکیل کے دلائل کے لیے سماعت 3 فروری کو مقرر کی تھی۔