نواز شریف کی جعلی میڈیکل رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی ہے، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے واشنگٹن میں بیٹھے اپنے ذاتی معالج سے جعلی رپورٹ بناکر بھجوائی ہے جو آج ہائی کورٹ میں جمع کی گئی ہے۔
فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی بہت ہی دلچسپ میڈیکل رپورٹ آج ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے، جس میں ایک ڈاکٹر شال جو واشنگٹن میں رہتے ہیں، انہوں نے لندن میں رہنے والے نواز شریف کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ بہت تناؤ میں ہیں اور ان کی کووڈ-19 کی وجہ سے حالت ایسی نہیں ہے کہ پاکستان کا سفر کریں۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع، سفر سے گریز کی ہدایت
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس طرح کی میڈیکل رپورٹس سے سوائے اس کے کہ آپ پاکستان کے عدالتی نظام اور پاکستان کے قوانین کا مذاق اڑا رہے ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر جو 2004 سے آپ کے ذاتی معالج ہیں اور ان سے آپ اس طرح کی جعلی رپورٹس بھجواتے ہیں، تو دراصل آپ پاکستان کے جو قانونی نظام ہے اس کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ میرے خیال میں نواز شریف کے پاس سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لوگوں کا پیسہ واپس کریں اور اس کے بعد لندن میں رہیں، اس طرح کی جھوٹی رپورٹس بھجوانے سے اس کا مقصد حل نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح یہ رپورٹ لکھی گئی ہے اس میں صرف یہی کمی ہے کہ انہیں ہائیڈ پارک کے علاوہ کہیں پر واک بھی نہیں کرنا چاہیے، اس سے ان کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ جعلی رپورٹس کا ایک پلندہ ہے، جو شریف خاندان تیار کرکے پاکستان بھیج رہا ہے، اس سے احتراز کریں اور جو کام قانونی طور پر ہے، اس کو سرانجام دیں اور پاکستان کے لوگوں کا پیسہ واپس کریں۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ عدالت نہ صرف جس طرح وہ باہر نکلے ہیں، اس کا نوٹس لے گی بلکہ جعلی رپورٹس کا بھی سختی سے نوٹس لیا جائے گا۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ جمع کروا دی گئی جس میں سابق وزیر اعظم کو مکمل صحتیاب نہ ہوجانے تک سفر نہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کی پنجاب سے نواز شریف کی رپورٹس کے جائزے کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست
نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ واشنگٹن ایڈوینٹسٹ ہیلتھ کیئر وائٹ اوک میڈیکل سینٹر کے انٹروینشنل کارڈیالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض شال نے تیار کی ہے جو امجد پرویز ایڈووکیٹ کی وساطت سے عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے سبب سابق وزیر اعظم کو سانس کے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، وہ دل کے امراض میں بھی مبتلا ہیں اور وائرس کے سبب ان کی جان کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، لہٰذا جب تک نواز شریف کی کرونری انجیوگرافی نہیں کی جاتی ان کے لیے تجویز کیا جاتا ہے وہ صحت سینٹر کے قریب ہی رہیں اور ادویات لیتے رہیں۔
میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف اپنی ادویات جاری رکھیں اور کھلی جگہ پر چہل قدمی کریں، چہل قدمی کے دوران کورونا سے بچاؤ کے ایس او پیز سمیت دیگر اقدامات بھی کریں، عالمی سطح پر موجود کورونا وائرس کے باعث نواز شریف کو ہر طرح کے سفر یا عوامی مقامات جیسے ہوائی اڈوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے جنوری کے اوائل میں نواز شریف کی بیماری کی صورت حال کی جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کرنے کے لیے حکومت پنجاب سے درخواست کی تھی تاکہ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹس پر ماہرانہ رائے لی جائے۔
بعد ازاں 24 جنوری کو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو خط لکھ کر ان کے بھائی نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس 10دن میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دفتر سے شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آپ نے ہائی کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ رجسٹرار ہائی کورٹ کو نواز شریف کی صحت کی جانچ کے حوالے سے رپورٹس وقتاً فوقتاً جمع کراتے رہیں گے۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف کو 10دن میں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے بعد کُل 8 رپورٹس رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس جمع کرائی گئیں اور اور اس سلسلے میں آخری رپورٹ 8 جولائی 2021 کو جمع کرائی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل نے لکھا تھا کہ میڈیا میں دستیاب نواز شریف کی موجودہ جسمانی حالت اور ملک سے روانگی کے وقت انتہائی سنگین حالت کے باوجود انہیں بیرون ملک ہسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا اور ان کی سیاسی اور تفریحی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس سے یہ عندیا ملتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کے تحت وہ وطن واپسی کے لیے مکمل فٹ ہیں جبکہ حال ہی میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں اور ان کے قریبی اہل خانہ کے بیانات سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 11 جنوری 2022 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے کی خلاف ورزی پر کارروائی شروع کروں۔