پاکستان

بے نظیر قتل کیس: گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی گئی

بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کے سربراہ کے مطابق جنرل کیانی نے اس معاملے میں طالبان کے کردار پر تشکیک کا اظہار کیا تھا۔

اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ایک اہم تفتیش کار ہیرالڈو مونیوز نے پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل پر چھان بین کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر اپنے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ اس نے یہ حملہ آزادانہ طور پر کیا۔ لیکن انہوں نے بے نظیر کے قتل میں انٹیلی جنس اداروں کے کارندوں کے ملوث ہونے اور بعد میں ثبوتوں کے مٹانے کے معاملے میں ان کے کردار کو رد نہیں کیا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کے حوالے سے ہیرالڈو مونیوز کے آنے والی کتاب  Getting away with the murder سے ایک اقتباس فارن افیئرز میگزین کی ویب سائٹ پر شایع کیا گیا ہے۔ اس میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کیس کی گتھی  اس وجہ سے اب تک سلجھائی  نہیں جاسکی کہ عدالتوں اور حکومت، دونوں ہی کے پاس اس کیس کو حل کرنے کی خواہش اور صلاحیت کا فقدان تھا۔

جولائی 2009ء میں ہیرالڈو مونیوز کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے حکومت پاکستان کی درخواست پر بے نظیر کے قتل کے معاملے کی تفتیش کے لیے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس کمیشن نے مارچ 2010ء میں اپنی رپورٹ سیکریٹری جنرل کو پیش کی تھی۔

اتفاق دیکھیے کہ فارن افیئرز کی ویب سائٹ پر اس مضمون کو اسی روز شایع کیا گیا ہے، جس دن بے نظیر قتل کے مقدمے میں راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے سابق فوجی حکمران ریٹائرڈ جنرل پروز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

ہیرالڈو مونیوز کو یقین ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو اس قتل کے معاملے میں مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیے گئے سیاسی معاہدے میں تلخی پیدا ہونے کے بعد انہیں مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اپنی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل شجاع پاشا سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بیان کرنے کے بعد مضمون میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”آئی ایس آئی یا کم ازکم اس کے کچھ ریٹائرڈ آفیسرز یا پھر اس ایجنسی کے انتہا پسند اراکین کے اس قتل کے معاملے میں ملوث ہونے کے شکوک و شبہات بے بنیاد نہیں تھے۔“

ہیرالڈو مونیوز کا کہنا ہے کہ جنرل کیا نی کے ساتھ ملاقات کا تجربہ فوج کی جانب سے پھیلائے گئے تصور کے برعکس رہا، انہوں نے بتایا کہ ان انٹرویو کے سلسلے سے میں انہیں بہت دھکے کھانے پڑے، یہاں تک کہ طاقتور جنرلوں کی طرف سے نجی طور پر خبردار بھی کیا گیا۔

انہوں نے انکشاف کیا ”متعدد غیر رسمی بات چیت، جن میں نے متنبہ کیا تھا کہ اگر ہمیں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور پاک فوج کے سربراہ تک رسائی نہیں دی گئی تو یہ کمیشن پاکستان سے چلا جائے گا اور پھر واپس نہیں آئے گا، چنانچہ ہمیں ہماری درخواست پر انٹریو کی اجازت دی جائے۔ خیر پھر میں نے ایک پاکستانی اہلکار کے دوستانہ مشورے پر جنرل کیانی کو براہ راست خط لکھا۔“

اس مضمون میں جنرل پاشا کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کچھ تفصیلات دی گئی ہیں، لیکن اس حوالے سے بہت سے سوالات اُٹھائے گئے ہیں کہ پاک فوج کی جاسوس تنظیمیں (ایم آئی اور آئی ایس آئی) کسی واقعہ کے بعد اس سے کس طرح نبرد آزما ہوتی ہیں۔ جائے وقوعہ کو پانی سے دھو ڈالنے اور وزارت داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی میڈیا کو دی گئی بریفنگ سے اس انوسٹی گیشن کی شروعات ہوئی اور اسی سے اس کی سمت کا پتہ چل جاتا ہے۔

بریگیڈیئر چیمہ نے جو کچھ کہا، اس گفتگو کے نکات انہیں فوجی ہیڈکوارٹرز میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

ہیرالڈو مونیوز نے کہا کہ ”اس بات پر مجھے یقین ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر بے نظیر بھٹو کے قتل کی انوسٹی گیشن میں بگاڑ پیدا کیا۔ کچھ پولیس کے اہلکاروں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نہیں نبھائیں جیسا کہ انہیں کرنا چاہئیے تھا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس جرم میں بہت سے طاقتور لوگ یا انٹیلی جنٹس ایجنٹ ملوث تھے۔“

انہوں نے ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی نے ایک خصوصی سیل قائم کیا تھا، جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان واپسی کے بعد بے نظیر بھٹو اور اُن دہشت گردوں پر نظر رکھے جو بے نظیر پر حملے کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے۔

بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پہنچیں تو ان کے استقبال میں ایک جلوس نکالا گیا، جس کے دوران  کارساز (کراچی) کے مقام پر بم دھماکہ ہوا تھا، اس دھماکے میں ملوث چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کے کمیشن کی طرف سے لیے گئے حکام کے انٹرویو کے دوران ان چار افراد کے بارے میں کسی نے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کا ڈرافٹ جو میڈیا کے ہاتھ لگ گیا تھا، اس کے متن کی طرح ہیرالڈو مونیوز کے مضمون میں بھی اسی پہلو کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے پاس کہیں زیادہ وسائل اور اختیارات ہیں، جبکہ پولیس وسائل اور صلاحیت سے محروم ہے۔

پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقات:

مضمون کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ملاقات انتہائی خفیہ ہونی چاہئیے تھی، لیکن حکومتی ذرائع نے اسے میڈیا کو لیک کردیا۔

ہیرالڈو مونیوز لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ میں وہاں سے نکلتا جنرل کیانی نے بہت مشتاقانہ لہجے میں بے نظیر بھٹو کے بارے میں بتایا ”ان کی بچپن سے ہی سیاسی ماحول میں تربیت ہوئی تھی۔ وہ پختہ سیاسی شعور کی مالک تھیں۔“ جنرل کیانی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے تھے اور جب وہ دبئی میں مقیم تھیں تو بھی جنرل کیانی نے ان سے ملاقات کی تھی۔

جنرل کیانی نے انہیں بتایا کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی سے قبل ان کا جنرل مشرف کے ساتھ ایک سیاسی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔اس معاہدے دیگر نکات میں یہ بھی شامل تھا کہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں گی، جنرل مشرف صدر کے عہدے پر برقرار رہیں گے اور بے نظیر کے خلاف تمام عدالتی الزامات کو واپس لے لیا جائے گا۔

آرمی چیف جنرل کیانی حیرت کا اظہار کیا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر بیت اللہ محسود نے اس قتل کی منصوبہ بندی کی ہے۔

مشرف حکومت نے آئی ایس آئی کی طرف سے ریکارڈ کی گئی ایک ٹیلی فونک بات چیت کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ بیت اللہ محسود اس قتل میں ملوث ہے۔

جنرل کیانی نے کہا تھا ”ہم محض ٹیلی فونک بات چیت کی ریکارڈنگ پر انحصار کرتے ہوئے کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے۔“

آرمی چیف کے مشاہدات جیسا کہ شایع کیے گئے ہیں، ہیرالڈو مونیوز کے اپنی تلاش کی تصدیق کرتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان قبائلی علاقوں سے باہر کے علاقوں میں کسی بڑے حملے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

جنرل کیانی نے راولپنڈی پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے موقع واردات پر انتہائی اناڑی پن کا مظاہرہ کیا اور حکومت کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کو انہوں نے جنرل مشرف کی اس حکمت عملی سے یکسر مختلف قرار دیا جو انہوں نے بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اختیار کی تھی۔

ہیرالڈو مونیوز نے اپنے تجزیہ میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس حملے کے معاملے میں القاعدہ کے ساتھ دیگر کرداروں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوسکتی ہے۔ طالبان نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے حمایتی عناصر کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا، جنرل مشرف نے اپنی غفلت کے ذریعے اسے سہولت فراہم کی، مقامی پولیس نے اس کی پردہ داری کی اور بے نظیر بھٹو کے ذاتی سیکیورٹی ٹیم ان کی حفاظت میں ناکام رہی۔

انہوں نے واضح کیا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی فوج کی اعلی ٰقیادت، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر قوتوں کے ساتھ پاکستان میں طاقت کے  مراکز میں شریک ہے۔

ہیرالڈو لکھتے ہیں ”پاکستان میں جب دہشت گردی سے منسلک کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس ملک کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ضروری ہے کہ ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے، جو مختلف اداروں کے ساتھ چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا انٹیلی جنس کے ادارے ہوں، کے ساتھ اس معاملے کی تفتیش کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس کے لیے مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) 28 دسمبر کو تشکیل دی گئی تھی، اسی روز راولپنڈی ڈسٹرکٹ پولیس کے انتظامی مرکز پہنچی، جہاں ٹیم کی ملاقات پولیس چیف سعود عزیز سے ہوئی، انہوں نے موقع واردات پر ٹیم کو لے جاکر کارروائی کی شروعات کرنے کے بجائے ان کی چائے سے تواضع شروع کردی۔“

ہیرالڈو لکھتے ہیں کہ ”اس وقت جبکہ مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے ٹی آئی) کے اراکین پولیس لائنز میں ہی بیٹھے تھے، وزارت داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس ٹی وی پر نشر ہونے لگی۔ اس کو دیکھ کر پولیس چیف سعود عزیز نے مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے ٹی آئی) سے کہا کہ وہ اب بھی کسی تفتیش کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ جرم کا ارتکاب کرنے والے کو حکومت نے پہلے ہی شناخت کرلیا ہے۔ جب مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے ٹی آئی) کے اراکین نے سعود عزیر پر زور دیا کہ وہ موقع واردات کا وزٹ کرنا چاہتےہیں،تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اس وقت رات ہوگئی ہے اور اندھیرا ہوگیا ہے، اس لیے وہ ان کے لیے اگلی صبح جائے وقوعہ کے معائنے کا بندوبست کردیں گے۔اگلے دن جب تفتیش کار پولیس لائنز دوبارہ پہنچے جہاں انہوں نے بے نظیر بھٹو کی گاڑی کا جائزہ لینا تھا، تو انہوں نے دیکھا کہ جس لیور کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کے سر میں زخم آئے تھے، اس پر نہ تو خون کا نشان تھا اور نہ ہی کوئی ٹشو دریافت ہوسکا۔“

انہوں نے اپنے مضمون کے اختتامی پیراگراف میں تبصرہ کیا کہ ”پاکستان کی سیاسی قیادت بجائے اس کے کہ اس معاملے کو ختم کرنے کے بے نظیر کے قتل کے پس پردہ ہاتھ کو تلاش کرنا چاہئیے۔