نقطہ نظر

معلومات تک رسائی

شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دینے میں خیبر پختون خواہ بازی لے گیا۔

خیبر پختون خواہ کے گورنر نے صوبائی حکومت کی درخواست پر، شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دینے کے واسطے 'رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس' نافذ کردیا ہے جو بجا طور پر قابلِ تعریف اور ملک کی حالیہ قانون سازی کی تاریخ میں نافذ کردہ تمام قوانین میں، سب سے زیادہ ترقی پسندانہ فِکر کا عکاس ہے۔

معلومات تک رسائی کا حق دینے کے واسطے نافذ کردہ یہ آرڈیننس شہریوں کو ایسا آلہ فراہم کرتا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ بے عمل انتظامیہ کو حرکت میں لاسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، ہندوستان میں جہاں معلومات تک رسائی کا قانون بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، متعدد دوسروں کی طرح، پاسپورٹ اجرا کے منتظر ایک شہری نے درخواست دی کی کہ وہ اجرا کی رفتار اور اس وقت مراکز پر کتنے پاسپورٹ تاخیر کا شکار ہیں، یہ جاننے کا خواہشمند ہے۔

 اس کے بعد کام چور عملے نے نہایت تیزی سے پاسپورٹ اجرا کا عمل شروع کردیا تاکہ جب ان کی کام چوری کا پردہ فاش ہو تو وہ شرمندگی یا مشکل سمیت اپنے اعلیٰ افسران کی باز پرس اور جواب طلبی سے بچ سکیں۔

وہ پاکستانی جو گزشتہ مہینوں کے دوران پاسپورٹ کے حصول کی جدوجہد کرتے رہے ہیں، وہ دباؤ ڈالنے والے ایسے طریقہ کار کی اہمیت کو ضرور سراہیں گے۔

اگرچہ پاسپورٹ اجرا کا معاملہ وفاق کے تحت آتا ہے جب کہ خیبر پختون خواہ کے اس قانون کا اطلاق صوبے پر ہوتا ہے، لہٰذا ایسے میں یہ دیکھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس قانون کا مختلف النوع صورتوں پر کس طرح نفاذ ہوتا ہے۔

خیبر پختون خواہ کے اس قانون میں ایک بات خاصی حوصلہ افزا ہے، وہ یہ کہ اسے بنانے والوں نے معلومات تک رسائی کا حق دینے والے تمام نافذ  کردہ قوانین کے بارے میں پہلے سروے کیا اور اُن میں جو مسائل یا خامیاں پائی گئی تھیں، انہیں اپنے مسودہ قانون میں دورکردیا ہے۔

لہٰذا، خیبر پختون خواہ کے اس قانون میں اطلاع دینے والے کے لیے بھی تحفظ  شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ایک اہم تحفظ ایسی غلطیوں کے نشاندہی کرنے والوں کو حاصل ہوگا، جنہیں اکثر میڈیا اور عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ساتھ ہی اضافی طور پر، ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بھی قائم ہوگا جو اس قانون کے تحت فراہم کردہ حق کو استعمال کرتے ہوئے، دی گئی درخواست پر کارروائی میں غیر ضروری تاخیر یا اس سے صرفِ نظر کے معاملات دیکھے گا۔

قومی سلامتی کی بنیاد پر شراکتِ اطلاعات سے چھوٹ کے ریاستی دعوے کے مقابلے میں، درخواست گزار کے حق کو مضبوط تر کرنے کے لیے خیبر پختون خواہ کے اس قانون کے تحت، ایک افسرِ اطلاعات درکار ہوگا جو چھوٹ دینے کے معاملات کی تنگ نظری کے بجائے وسیع تر تشریح کرے گا۔

صوبے کا یہ قانون پُرمغز اور شہریوں کے موافق ہے تاہم زیادہ سے زیادہ بہتری اس کے نفاذ پر منحصر ہوگی۔

عالمی سطح پر رائج اس طرح کے قوانین کا عملی تجربہ ظاہر کرتا ہےکہ ان کا نفاذ دو عناصر پر منحصر ہے، اول ایسی آگاہی مہم جو شہریوں کو اس نئے قانون سے متعلق آگاہ کرسکے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں اطلاعات تک رسائی کا حق دینے کی شکل میں کئی قوانین نافذ کیے گئے لیکن تعلیم کی طرف کم توجہ اور عدم آگاہی کی بنا پر، اب صرف چند ہی لوگ ان کے بارے میں جانتے ہوں گے۔

دوئم، اس قانون کے تحت جن مختلف سرکاری  محکموں میں افسرِ اطلاعات کا تقرر ہوگا، ضروری ہے کہ انہیں متعلقہ طریقہ کار کے بارے میں نہ صرف تربیت فراہم کی جائے بلکہ اس قانون کے پیچھے جو روح پوشید ہے، وہ اس سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں۔

ایک لائق اور ہمدرد افسرِ اطلاعات ہی بہتر طور پر عوام کی خدمت کے ساتھ، قانون اور اس کے غیر موثر ہونے کے درمیان فرق لاسکتا ہے۔