سیرل کلر 'جاوید اقبال' کی زندگی پر فلم کیا دیکھنے کے لائق ہے؟
حکومت پنجاب نے سیریل کلر ’جاوید اقبال’ کی زندگی پر بنائی گئی ہارر تھرلر فلم ’جاوید اقبال: دی اَن ٹولڈ اسٹوری آف آ سیریل کلر' پر ریلیز سے دو دن قبل اس کی نمائش پر پابندی عائد کردی۔
مگر اس کا پریمیئر کچھ دن پہلے ہوچکا تھا۔
فلم کے ہدایت کار اور رائٹر ابو علیحہ کی یہ چھٹی فلم ہے اور ڈان آئیکون سے انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ سابقہ فلموں سے انہیں بطور فلم ساز کے طور پر اس میڈیم کو کنٹرول کرنے کی مشق ہوئی اور فلم سے ایسا ثابت ہوا۔
ڈان آئیکون میں فلم کے ریویو میں بتایا گیا کہ یہ ابو علیحہ کا بطور ٖڈائریکٹر اب تک کا سب سے بہترین کام ہے۔
فلم میں یاسر حسین نے جاوید حسین کا کردار ادا کیا جو لاہور کا ایک بدنام سیریل کلر تھا۔
1999 میں جاوید اقبال نے پولیس کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے 100 بچوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا جن کی عمریں 6 سے 16 سال کے درمیان تھیں، اس نے ساتھ میں یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ اس نے زیادہ تر بچوں کو گلا گھونٹ کر مارا اور ان کے جسم کے کئی ٹکڑے بھی کیے۔
جاوید اقبال مغل نے 2001 اکتوبر میں لاہور کی جیل میں خودکشی کرلی تھی۔
جاوید اقبال نے اس وقت کہا تھا اور فلم میں بھی دکھایا گیا کہ کوئی بھی اسے پکڑ نہیں سکتا تھا اگر وہ خود ایسا نہ کرتا۔
عائشہ عمر نے زارا نامی پولیس انسپکٹر کا کردار کیا۔
فلم میں جاوید اقبال کی گرفتاری اور جیل میں منتقلی کو دکھایا گیا، فلم کی کہانی پولیس کی تفتیش کے گرد گھومتی ہے جس میں کچھ ایسا نہیں جو پہلے اخبارات میں پڑھا یا سنا نہ ہو۔
جاوید اقبال کے کردار کو بطور سیریل کلر زیادہ بیان نہیں کیا گیا، اس کے مقاصد یا جرائم وغیرہ پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی۔
یہ فلم ابوعلیحہ کے ناول ککڑی پر مبنی ہے۔
فلم میں مناظر کافی بہترین انداز سے فلمائے گئے، جیسے ایک سین میں ایک غم زدہ ماں جس کا کردار رابعہ کلثوم نے ادا کیا، جاوید اقبال سے گڑگڑا کر درخواست کی کہ اسے ایسی نشانی دے کہ اس کے بیٹے کا قتل اس نے نہیں کیا۔
لوگوں کے ممکنہ تاثر کے برعکس فلم میں جاوید اقبال کو سسٹم کا متاثر نہیں دکھایا گیا۔
96 منٹ کی فلم میں یاسر حسین نے کردار کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔
جاوید اقبال کی شخصیت میں تضاد کو فلم کے آغاز میں دکھایا گیا جب اس نے پہلی بار خود کو پیش کیا تو پولیس اس کی غیرمشتبہ اور 'نارمل' فطرت کے باعث الجھن کا شکار ہوگئی۔
زارا نے ایک پولیس اسٹین میں اپنے افسران (درحقیقت ناظرین کو) آگاہ کیا کہ ہر قاتل میں اس کی شخصیت کی نشانیاں ظاہر نہیں ہوتیں جیسا فلموں یا ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔
یاسر حسین فلم میں فلم یا ٹی وی کے کسی روایتی سائیکو کلر جیسے ہی نظر آئے، ان کی پرفارمنس میں بتدریج اضافہ نہیں ہوا بلکہ وہ زیادہ تر بدلتے نظر نہیں آئے۔
عائشہ عمر نے اس فلم میں دوسرا اہم ترین کردار ادا کیا اور بظاہر ان کی اداکاری مختصر شوٹنگ شیڈول اور بجٹ کے محدود ہونے سے متاثر ہوئی (ڈائریکٹر کے مطابق فلم کو 8 دن میں شوٹ کیا گیا اور زیادہ تر ایک پولیس اسٹیشن میں اسے فلمایا گیا)۔
زیادہ بڑا بجٹ اور کہانی پر نظرثانی فلم کو زیادہ بہتر بناسکتی تھی اور یہ مرکزی کرداروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا، کیونکہ ان کے پاس کرداروں کو دینے کے لیے وقت ہوتا، اگر وہ ایسا چاہتے۔
سپورٹنگ کاسٹ بشمول پارس مسرور نے کافی بہتر کام کیا۔
تمام تر خامیوں کے باوجود ڈائریکٹر نے بتدریج فلم کو اچھی طرح آگے بڑھایا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ سیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اچھے کام کو بڑھانا چاہیے۔
فلم کے تاریک اور جلد بازی کے تاثر کے باوجود ڈائریکٹر کی کہانی بیان کرنے کی قابلیت بہتر محسوس ہوئی اور ان کی فلم یقیناً دیکھنے کے لائق ہوگی۔
فلم کا مکمل ریویو اس لنک پر جاکر پڑھیں۔