پیپلز پارٹی کے قانون ساز 'غیر وفادار سینیٹرز' کےخلاف کارروائی کے خواہاں
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے متعدد سینیٹرز چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت ان سینیٹرز کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی کے وقت ان کی حمایت کی تھی جس سے اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ پیدا ہوئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعت کے سینیٹرز کا یہ مطالبہ سینیٹ میں حزب اختلاف کے بینچز پر بیٹھے ہوئے 6 آزاد سینیٹرز کے گروپ کی جانب سے 3 ماہ سے بھی کم مدت میں دوسری بار دھوکا کھانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کروانے میں کامیاب ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو ان نرم دل اراکین اور سینیٹرز کا صفایا کرنا چاہیے جو اپوزیشن بینچز پر بیٹھتے ہیں لیکن ووٹ حکومت کے لیے دیتے ہیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ کل (جمعہ) کا دن پوری پارلیمنٹ بالخصوص سینیٹ کے لیے باعث شرمندگی تھا، جب ایسی دستاویز منظور کی گئی جو پاکستان کو بین الاقوامی قرض دہندگان کی کالونی بنادے گی۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے لیے پاکستان کی تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس لیے بھی قابل افسوس دن تھا کہ سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن ایک مرتبہ پھر ناکام ہوگئی۔
رضا ربانی نے سینیٹر دلاور خان کی قیادت میں اپوزیشن کی بینچز پر بیٹھ کر ہمیشہ حکومت کو ووٹ دینے والے 6 آزاد سینیٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذاق اب بہت بڑھ گیا ہے۔
خیال رہے کہ 100 رکنی سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود اپوزیشن جمعہ کو متنازع اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری روکنے میں ناکام رہی جو محض ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کیا گیا۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر حکومت، اپوزیشن کے آمنے سامنے آنے کا امکان
اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی سمیت حزب اختلاف کے کم از کم 8 سینیٹرز اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ دلاور خان گروپ کے کم از کم چار ارکان نے حکومتی بل کے حق میں ووٹ دیا۔
اس سے قبل 19 نومبر کو بھی سینیٹ میں 4 بلز پر اپوزیشن کو اسی طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اسی آزاد گروپ کے ارکان نے حکومت کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔
سال 2018 میں منتخب ہونے والے 6 آزاد سینیٹرز گزشتہ سال مارچ میں سینیٹ انتخابات سے قبل حکومتی بینچز پر بیٹھتے تھے جس کے بعد اچانک انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو اپوزیشن بینچز پر نشستیں مختص کرنے کے لیے درخواست جمع کرادی۔
بعد ازاں انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو لکھے گئے خط کے ذریعے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی جس کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) پہلے ہی اعظم نذیر تارڑ کو نامزد کر چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور
اس گروپ کے 5 ارکان مختلف کمیٹیوں کے چیئرمین کی حیثیت سے مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے جو انہیں یوسف رضا گیلانی کی حمایت کے صلے میں اپوزیشن کے کوٹے پر ملی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام آزاد سینیٹرز نے اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے کے اپنے فیصلے سے صرف چند روز پہلے ہونے والے انتخابات میں صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا۔
آزاد گروپ کے دیگر ارکان میں بلوچستان سے احمد خان، کودا بابر اور نصیب اللہ بازئی اور سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ہدایت اللہ خان اور ہلال الرحمٰن شامل ہیں۔
گزشتہ سال 30 جون کو قومی اسمبلی میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ گرماگرمی کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ یہ حکومت تھی جس نے اپنے 6 بندوں کے ذریعے یوسف گیلانی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دلانے میں مدد کی تھی۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا بل کابینہ سے منظور
پی پی پی کے متعدد رہنما اب تسلیم کرتے ہیں کہ 6 آزاد سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنا اور پھر ان میں سے پانچ کو کمیٹیوں کا چیئرمین مقرر کرنا ان کی قیادت کا غلط فیصلہ تھا۔
پی پی پی کے دیگر سینیٹرز اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اپنی نجی گفتگو میں کر رہے ہیں لیکن ایسے وقت میں مصطفی نواز کھوکھر واحد پارٹی رہنما ہیں جو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ پارٹی قیادت کو ان سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ پارٹی ان 6 آزاد سینیٹرز کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ آزاد سینیٹرز ان کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما اپنے اس مطالبے پر متفق ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کم از کم چیئرمین سینیٹ کو یہ خط ضرور لکھیں کہ ان آزاد سینیٹرز کو کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حکومتی کوٹے سے دی جائے تاکہ اپوزیشن کو اپنی مرضی کے مطابق کچھ اور کمیٹیوں کی چیئرمین شپ حاصل ہوسکے۔