نقطہ نظر

افغانستان پر فائدے سمیٹنے کیلئے بھارت، ایران، قطر ہم سے آگے چل رہے ہیں؟

اسٹیٹ بینک نے ہی ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے کہ سب بھول کر گھر کو دیکھیں۔ جن کے پاس پیسے ہیں مزے فائدے بھی انہی کو ملیں گے۔

8 دسمبر کو فنانس ڈویژن نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے افغانستان ریلیف فنڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک نے حکومت کو حال ہی میں ہدایت کی ہے کہ وہ اس فنڈ کو قائم کرنے سے باز رہے کیونکہ اس فنڈ میں آنے والی رقوم پر ایف اے ٹی ایف کو اعتراض ہوسکتا ہے۔

اس وقت تک اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل ابھی منظوری کے مراحل میں ہی تھا کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی طاقت اور آزادی کا ایک مظاہرہ کردیا اور شاید ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ اسٹیٹ بینک کو مزید بااختیار بنانے کے لیے قانون سازی آئی ایم ایف کے اصرار پر ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کی اگلی ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے ہم یہ قانون سازی کر رہے ہیں۔

اس کا اثر ہماری خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی پر کیسے پڑا ہے یہ حساب آپ خود لگاتے رہیں۔ افغانستان کو مدد فراہم کرنے کی ہماری اس کوشش کو بہرحال بریک لگ گئی ہے۔

اسلام آباد میں افغانستان کے معاملے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس دسمبر میں ہوئی تھی۔ اسی دن دہلی میں وسط ایشیا کہ 5 ممالک افغانستان پر ہی اجلاس کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اب جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے افغان ریلیف فنڈ پر اعتراض کی خبر آئی تو اس کے اگلے ہی دن دہلی سے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی سربراہی میں 5 وسط ایشائی ممالک کے افغانستان پر سربراہی اجلاس کے انعقاد کی خبر بھی آگئی۔

مزید پڑھیے: پاکستان اور افغانستان کی مدد کو آئے سعودی کہیں مشکل میں نہ پھنس جائیں

یہ ورچوئل اجلاس تھا جس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا اور اس صورتحال کے خطے کی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں پُرامن، مستحکم اور محفوظ افغانستان کی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور افغانستان کی سالمیت، استحکام اور اس کی خودمختاری کے احترام اور اس کے معاملات میں عدم مداخلت پر اصرار کیا گیا۔ اجلاس میں افغانستان پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔

اسی اجلاس میں علاقائی رابطے اور تاپی منصوبے کی بحالی پر بھی غور کیا گیا اور انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں مزید وسط ایشیائی ممالک کو شمولیت کی دعوت دینے کا بھی فیصلہ ہوا۔ ترکمن باشی پورٹ کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنے پر ترکمانستان کو خوش آمدید کہا گیا اور ساتھ ہی چاہ بہار کے ذریعے فری موومنٹ پر ایک ورکنگ گروپ بنانے پر بھی اتفاق ہوا ۔

اب ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھارت جارہے ہیں اور ان کے دورے کے ایجنڈے میں پہلی چیز افغانستان اور علاقائی رابطے پر بات چیت ہے۔

قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمٰن جو نائب وزیرِاعظم بھی ہیں، تہران پہنچے ہیں۔ ان کی آمد سے ایک دن پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ نے ایک بیان دیا کہ اگر نتائج اچھے نکلنے کا امکان ہو تو امریکا ایران جوہری معاہدے پر براہِ راست بات چیت بھی کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیے: سالنامہ: دو حصوں میں تقسیم ہوتی دنیا کس طرف جارہی ہے؟

قطری وزیرِ خارجہ نے ایرانی صدر سے ملاقات کی۔ ان کے اس دورے سے ہفتہ دس دن پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ دوحہ کا دورہ کرکے آئے تھے۔ عرب نیوز کا کہنا ہے کہ قطری وزیرِ خارجہ کا دورہ تہران امریکا ایران مذاکرات میں پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے۔ قطری کوشش کر رہے ہیں کہ امریکا اور ایران کی براہِ راست بات چیت کروا دیں۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے 31 جنوری کو امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرنی ہے جس کے بعد کسی پیش رفت کا امکان ہے۔

افغانستان میں طالبان کی آمد بھارت کے لیے ایک دھچکا لگ رہا تھا لیکن وہ مسلسل اس کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کر رہا رہے۔ ایرانی بھی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اور پابندیاں ختم کروانے سے پہلے ایک اچھی ڈیل لینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ افغانستان پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ انہیں قطر کی بھی حمایت حاصل ہے اور سعودیہ کے ساتھ ان کے مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ قطر افغانستان پر ایک کامیاب معاہدہ کروانے کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان بھی کوئی پیش رفت کرواتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایسے میں افغانستان سے سب سے زیادہ متعلق ملک ہوکر بھی ہم جہاں کھڑے ہیں اس کا حساب کتاب آپ خود ہی لگا لیں۔ حساب میں کمزور ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ پیسے ہمیں لے بیٹھے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے ہی ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے کہ سب بھول کر گھر کو دیکھیں۔ جن کے پاس پیسے ہیں مزے فائدے بھی انہی کو ملیں گے۔

وسی بابا

دیس دیس کی اپنے دیس سے جڑی باتیں دیسی دل سے کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: WisiBaba. انہیں ٹوئیٹر پر فالو کریں WisiBaba.

آپ کا ای میل ایڈریس wisinewsviews@gmail.com ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔