بلاگر کے قتل کی سازش کیس میں سماعت مکمل
برطانیہ کے کنگسٹن اپون ٹیمز کراؤن کورٹ میں خود ساختہ جلاوطن بلاگر احمد وقاص گورایا کو قتل کرنے کے لیے مبینہ طور پر کنٹریکٹ کلر ہونے کے الزام میں گرفتار پاکستانی نژاد برطانوی محمد گوہر خان پر مقدمے کی سماعت فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اختتام کو پہنچ گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جیوری نے وکیل دفاع کے حتمی دلائل سنے جس میں گوہر خان کے خلاف استغاثہ کے الزامات کی تردید کی گئی۔
وکیل میلونی نے کہا کہ گوہرخان کا بلاگر وقاص گورایا کو قتل کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا کیونکہ اس کا مقصد پاکستان میں مقیم مڈل مین مزمل سے رقم حاصل کرنا تھا جس نے کچھ سال قبل گوہرخان کو ہونے والے مالی نقصانات کی ادائیگی کے طور پر اسے اس قتل کا ٹھیکا دینے کی کوشش کی تھی۔
اپنے دلائل کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وکیل دفاع نے کہا کہ گوہرخان نے اپنے ڈیوائسز سے میسجز کو کبھی ڈیلیٹ نہیں کیا، اگرچہ وہ روٹرڈیم جانے کا یقینی فیصلہ کرچکا تھا جہاں ہدف رہتا تھا لیکن اسے گرفتاری کا بھی کوئی ڈر نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش کیس میں استغاثہ کی ملزم پر جرح
انہوں نے مزید کہا کہ اگر گوہر کو واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا خوف ہوتا تو وہ ایمسٹرڈیم سے نکلنے پر میسجز ڈیلیٹ کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ چاقو سے متعلق استغاثہ کی رائے میں کئی پیچیدگیاں ہیں۔
استغاثہ نے ایک دن پہلے اپنے اختتامی بیان میں کہا تھا کہ 10.99 یورو کا چاقو مبینہ طور پر اس کے مؤکل نے قتل کے ہتھیار کے طور پر خریدا تھا اور اس نے اس کے لیے نقد رقم ادا کی اور اس کی قیمت مڈل مین سے وصول کرنے کے لیے رسید اپنے پاس رکھی۔
استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ گوہر خان نے سستے چاقو دستیاب ہونے کے باوجود مخصوص چاقو خریدا تاکہ وہ قتل کے ہتھیار کو چھپا سکے۔
مزید پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش کیلئے رقم پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں بھیجی گئی، برطانوی عدالت کو آگاہی
وکیل دفاع نے استدلال کیا کہ وہ کاٹنے یا تراشنے والا چاقو نہیں بلکہ پھل سبزی چھیلنے والی چھری تھی۔
وکیل نے کہا کہ یہ ایسا چاقو نہیں ہے جو ہمارے خیال میں اس مقصد (قتل)کے لیے مناسب ہو گا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ان کا مؤکل کسی کو مارنے کے لیے چاقو خریدنا چاہتا تو وہ 2 یورو زیادہ ادا کرتا اور 12.99 یورو کا چاقو خریدتا جو اس چاقو کے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے استغاثہ کی اس دلیل کو چیلنج کیا جس کے مطابق گوہر خان نے چاقو کے لیے نقد ادائیگی اس لیے کی تاکہ چاقو کی خریداری کا کوئی سراغ نہ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش میں رقم منتقلی کی تفصیلات منظرِ عام پر آگئیں
انہوں نے سوال کیا کہ اگر نقد ادائیگی کا مقصد چاقو کی خریداری کو چھپانا تھا تو وہ رسید اپنے ساتھ سینٹ پینکراس واپس کیوں لایا؟
وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل نے اپنی دستاویزات کے ساتھ جو مخصوص سرخ کار کرائے پر لی تھی اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وقاص گورایا کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
انہوں نے جیوری ارکان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ اسے دن کی روشنی میں مار ڈالتا؟
انہوں نے کہا کہ گوہر خان اپنے نام پر رجسٹرڈ اس مخصوص کار میں گھنٹوں بیٹھا رہا، جس نے یقیناً اسے سب کی نظروں میں مشکوک بنادیا ہوگا کیونکہ وہ اس گاڑی کو دکانوں پر جانے اور لوگوں سے وقاص گورایا کے بارے میں پوچھنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
مزید پڑھیں: برطانوی عدالت میں 'جلاوطن بلاگر کے قتل کی منصوبہ بندی' کی تفصیلات کا انکشاف
وکیل دفاع نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ گوہر خان رقم نکلوانے کی کوششوں میں ڈٹا ہوا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اسے وہ رقم واپس نہیں ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ مزمل یہ واضح کرچکا تھا کہ وہ اس رقم سے زیادہ ادا نہیں کرے گا لیکن گوہرخان نہیں مانا اور چند ہزار پاؤنڈ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اگر وہ قتل کے بدلے 80 ہزار پاؤنڈ حاصل کرنے والا تھا تو وہ چند ہزار حاصل کرنے کی اتنی کوشش کیوں کررہا تھا؟
مڈل مین مزمل اور گوہرخان کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے وکیل نے کہا کہ گوہر خان کو مزمل نے کچھ سال پہلے ایک ساتھ کام کرنے کے بعد برے حالات میں چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گوہر خان کا جہاز رانی کا کاروبار مبینہ طور پر مزمل کی چوری اور بدانتظامی کی وجہ سے تباہ ہوا۔اختتام پر وکیل دفاع نے اس بات کا اعادہ کیا کہ گوہر خان نے وقاص گورایا سے متعلق کوئی ریسرچ نہیں کی، اور گوگل، فیس بک یا انسٹاگرام پر بھی اس کا نام تلاش نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستانی نژاد برطانوی شخص پر بلاگر کے قتل کا منصوبہ بنانے کا الزام
انہوں نے کہا کہ گوہر خان وقاص گورایا کے سیاسی یا مذہبی رجحانات سے بھی واقف نہیں تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
جیوری اب شواہد پر غور کرے گی اور اکثریتی رائے کے ساتھ اپنا فیصلہ سنائے گی۔
بلاگر وقاص گورایا کے مطابق برطانوی پاکستانی شخص گوہر خان کی گرفتاری کا تعلق 12 فروری 2021 کو پیش آنے والے واقعے سے تھا۔