نقطہ نظر

رنی کوٹ: ایشیا کے سب سے بڑے جنگی قلعے کی کتھا! (دوسرا حصہ)

ہم گزرے زمانوں کے جنگل میں چلے آئے ہیں، جہاں جنگی قافلوں میں شامل گھوڑوں کی حرکت سے مٹی کے بگولے اُٹھتے ہیں۔

اس سیریز کے بقیہ حصے یہاں پڑھیے


ہمیں پورا یقین ہے کہ جب دریا اور خشکی کے راستے شمال سے جنوب کی طرف سفر کرنے والی سکندرِ اعظم کی فوج یہاں سے گزری ہوگی تب ان کی نظریں اس پہاڑی سلسلے پر ضرور پڑی ہوں گی۔ اس کے لشکر نے ضرور اس بہاؤ کو بھی پار کیا ہوگا جو ان پہاڑیوں کے درمیان سے بہتا تھا اور مغرب سے جاکر مشرق میں بہنے والے دریائے سندھ کے مرکزی بہاؤ سے ملتا تھا۔ معلوم نہیں کہ آج کل ’رونی نئے‘ کے نام سے رنی کوٹ کے بیچ میں سے بہتے بہاؤ کا ان دنوں کیا نام ہوگا۔

باپ کے بعد جب سکندرِ اعظم تخت پر بیٹھا تو ماں کے کہنے پر اس نے اپنے نزدیکی رشتے داروں کو قتل کروا دیا، یہاں تک کہ اپنی دودھ پیتی بہن کو بھی مار ڈالا۔

سکندرِ اعظم 20 جولائی 356 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور 10 جون 323 قبل مسیح میں ملیریا کے شدید حملے کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھا اور مرگیا۔ کچھ حوالے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’رخسانہ‘ (Roxana) جو اس کی محبوب بیوی تھی اور باختر سے تعلق رکھنے والی شہزادی تھی اس نے اُسے زہر دیا تھا۔

بہرحال 33 برس کی کم عمر میں سکندرِ اعظم نے بہت سارے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کی مگر ایک بدقسمتی جو ان دونوں باپ بیٹوں کے ساتھ رہی وہ یہ تھی کہ انہوں نے جہاں بھی نئے علاقے فتح کیے وہاں کچھ وقت کے بعد شورش جنم لے لیتی۔ وہ پھر سے اس ملک یا علاقے کو فتح کرنے کے لیے پریشان رہتے۔ سکندر کو سندھ میں بھی کچھ ایسے ہی سخت حالات سے نمٹنا پڑا تھا۔

سکندر ہندوکش پار کرکے 326 قبل مسیح میں ’اوھند‘ کی جگہ سے دریائے سندھ کو پار کرکے ٹیکسلا پہنچا۔ ٹیکسلا کے بادشاہ ’امبھی‘ نے کوئی جنگ نہیں کی۔ جہلم پار کرکے اس کی ’پورس‘ کے ساتھ جنگ ہوئی جس میں وہ کامیاب ہوا مگر پھر وہ پورس کا اچھا دوست بن گیا اور حکومت واپس پورس کو سونپ دی۔ سکندر کی آخری منزل ’مگدھ‘ کی بادشاہی اور اس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے سکندر کو مجبوراً واپس لوٹنا پڑا۔ اس کی واپسی کا راستہ سیہون سے ہوتا ہوا ’پٹیالا‘ اور وہاں سے عربی سمندر کے راستے واپس مصر جاتا تھا۔ اس لیے سکندر نے دریائی سنگم سے سمندر تک والے علاقے کو اپنی شہنشاہیت کے ایک صوبے کی حیثیت دے دی اور وہاں کا گورنر ’پیتھان ولد اگینور‘ کو مقرر کیا۔

پٹیالا پہنچ کر سکندر کو اندازہ ہوا کہ مقامی لوگ اسے کسی بھی حالت میں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر کسی علاقے کا کوئی حکمران، سکندر کو اپنا حاکم مان بھی لیتا تو سکندر کے دوسرے علاقے میں جانے کے بعد باغی ہوجاتا۔ اس کیفیت نے سکندر کو بہت پریشان کیا۔ جب سکندر ’نیرکوس‘ کو پٹیالا میں چھوڑ کر مغرب میں بلوچستان کی طرف نکل پڑا تو پٹیالا میں سکندر کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی۔ حالات خراب ہوگئے اور موسم بھی کوئی بہتر نہیں تھا جس میں دریائی سفر کیا جاسکے، مگر حالات قابو سے باہر ہوگئے تو نیرکوس نے مجبوراً اپنے دریائی سفر کی ابتدا کی۔

کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدیم راستے سے ایران کی طرف روانہ ہوا جو فارس سے ٹیکسلا تک بیوپاری قافلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

مورٹیمر وہیلر لکھتے ہیں کہ ’ہیروڈوٹس سندھ کو فارس کی سلطنت کا جنوب مشرق کی طرف آخری خوشحال صوبہ قرار دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے ان واقعات سے پہلے ہی برِصغیر، افغانستان اور ایران کے بیچ ان فارسی صوبوں میں سے گزرتا ہوا ایک مسلمہ تجارتی راستہ ہو، یہ راستہ پشاور کے میدان کے درمیان اور اٹک کے اوپر دریائے سندھ کے آر پار جاتا ہوگا، بہرحال اب فارس کے شہنشاہ کے زیرِ سایہ اور ترقی پذیر شاہی سلسلہ تجارت کے محرک کے زیرِ اثر اسی خطے کے ساتھ ساتھ ایک شاہراہ قائم ہوچکی تھی، شاہراہ کے ساتھ ساتھ صوبائی راجدھانیوں کے درجے کے قصبے یا شہر بننے اور بڑھنے لگے‘۔

سکندر سندھ سے مغرب کی طرف لوٹا اور 323 قبل مسیح میں مرگیا۔ ایران میں سلوکیوں کا زمانہ آیا اور یہاں ایک چھوٹی سی ریاست مگدھ کا حکمران چندر گپت بنا۔ چندر گپت موریہ خاندان کا پہلا راجہ تھا اور فارس سلطنت کے صوبوں سندھ، گندھارا کا علاقہ ہندوکش تک اس کے ہاتھ آگیا۔ موریہ سلطنت کا زمانہ 324 سے 187 قبل مسیح ہے۔ اشوک جو اس سلطنت کا تیسرا بادشاہ تھا وہ 272 قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا۔ وہ بدھ مت کا پیروکار تھا اور 232 قبل مسیح میں یہ جہاں چھوڑ گیا۔ یوں موریہ سلطنت آزاد ریاستوں میں بکھر گئی۔ یہ ایک حوالے سے مقامی لوگوں کی حکومت تھی۔

اس کے بعد ایک بار پھر دوسری قوموں کی آمد ہوئی۔ 184 سے 70 قبل مسیح تک ہمیں یونانی باختری یہاں سے کچھ دُور کاٹھیاواڑ تک نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں انڈو ستھین کا ایک پُرشور عہد نظر آتا ہے۔

مارسٹڈن اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ’جو قومیں وسط ایشیا میں آباد تھیں، یونانی ان کو ستھین اور ان کے وطن کو ستھیا کہتے تھے، اور ان میں بہت ساری قومیں تھیں۔ 500 برس سے اوپر (یعنی 150 قبل مسیح سے 400 عیسوی تک) یہ قومیں یکے بعد دیگرے ان راستوں سے آتی رہیں جہاں سے آریا آئے تھے۔ یہ کشمیر، افغانستان، پنجاب، سندھ، گجرات اور وسط ہند کے مغربی حصے میں آباد ہوئیں۔ ان میں سے جو قومیں ابتدا میں آئیں وہ ’سکا‘ تھی۔ یہ لوگ سندھ، مالوہ، کَچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات پہنچے۔ ایک اور انڈو ستھین قوم تھی جس کو ’کشن‘ (کوشن) کہتے تھے، اور یہ 45 قبل مسیح سے 225ء تک شمالی ہند میں حکمران رہی۔ پرشپور یعنی پشاور اس کی مرکزی حکومت کا تخت تھا، پنجاب، کشمیر اور سندھ میں اس کا راج تھا۔ کنشک اس قبیلے کا مشہور بادشاہ تھا جس کے نام پر آگے چل کر یہ قوم مشہور ہوئی۔ یہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔

اس کے بعد ’ساسانیوں‘ کا زمانہ آتا ہے، جو خود کو ’ہخامنشیوں‘ کی نسل سے ظاہر کرتے تھے۔ ساسانی سلطنت چوتھی ایرانی اور دوسری فارسی سلطنت تھی جو 226 سے 651 عیسوی تک قائم رہی، ساسانی سلطنت کے بانی ارد شیر اول (226 سے 240ء) نے پارتھیا کے آخری بادشاہ ارتنابوس چہارم کو شکست دے کر سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سندھ میں اس کی حکومت 283ء سے 367ء تک رہی۔ بھنبھور سے ہمیں جہاں انڈو ستھین اور ساسانیوں کے زمانے کے برتن اور دوسرے آثار ملتے ہیں وہاں ہمیں انڈس ڈیلٹا میں یہ پہلا کوٹ ملتا ہے جو اینٹوں سے نہیں پتھر سے تعمیر ہوا ہے۔

ایران کے نزدیک ہونے، سمندری اور خشکی کے راستوں کی وجہ سے رابطے میں رہنے کے سبب دریائے سندھ کے مغربی حصے تک پہنچنا انتہائی آسان رہا ہے اس لیے ہم سوچ سکتے ہیں کہ رنی کوٹ کی یہ طویل دیواریں اگر قدیم زمانے میں بنی ہیں تو دو ایسے زمانے گزرے ہیں جن میں ان کی تعمیر ممکن ہوسکتی ہے۔ ایک ہخامنشی سلطنت میں اور دوسری ساسانی سلطنت میں۔

ڈاکٹر ایف اے خان لکھتے ہیں کہ ’اس سوال کا جواب کہ قلعہ اسی پہاڑی جگہ پر کیوں بنایا گیا؟ یہ ہے کہ قلعہ ایسی جگہ تعمیر کرنا مقصود تھا جو نہ فقط قدرتی سرحد (دریائے سندھ) کے قریب ہو بلکہ ایسی جگہ پر ہو جہاں سے لشکر کشی کی صورت میں دشمن کا راستہ روکا جاسکے'۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ 'اگر قدیم شاہراہوں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں پہلی اہم شاہراہ وہی ہے جو حجری زمانے (Stone Age) سے موہن جو دڑو عہد اور آج سے چند صدیاں قبل تک برابر استعمال ہوتی رہی۔ یہ راستہ بین الاقوامی شاہراہ کی حیثیت رکھتا تھا جو میسوپوٹیما سے نکل کر ایران کے کرمان شا، مہران، سلطان آباد، قم کاشان، یزد، کرمان سے ہوتا ہوا مکران سے گزر کر سندھ میں داخل ہوتا تھا اور آمری سیوہن سے ہوتا ہوا موہن جو دڑو تک پہنچتا۔ اس شاہراہ کا سندھ میں ایک حصہ مکران سے کرچاٹ (کے قریب) سن اور آمری اور اس سے دریا کے اس پار برہمن آباد آتا جبکہ ایک راستہ کرچاٹ سے آگے نکل کر جھانگارا باجارا اور منچھر سے آگے نکل جاتا۔ یہ ہی راستے کوئٹہ اور قندھار کو جوڑتے ہیں یوں اسی شاہراہ کے اہم دوراہے پر قلعے کی بنیاد رکھنا دفاعی لحاظ سے مناسب اور ضروری تھا‘۔

تاج صحرائی صاحب کی تحقیق کے مطابق ’یہ قلعہ ایرانی فاتحین میں سے کسی نے بنایا ہوگا اور یہ زمانہ 700 قبل مسیح سے 625 عیسوی تک کا ہوسکتا ہے۔ ابتدائی تعمیرات میں یہ برج مستطیل شکل کے بنے ہوئے ہیں جبکہ بعد کی تعمیرات میں گول شکل دی گئی ہے۔ اس قلعے کے بنانے والوں کے آگے دو مقاصد رہے ہوں گے۔ پہلا مقصد تو مغرب اور شمال مشرق سے ہوتے حملوں کی رکاوٹ اور دوسرا مقصد قدیم تجارتی راستے کی نگہبانی۔ یہ قلعہ اس تجارتی شاہراہ کے مشرق میں 4 میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ یہ شاہراہ برہمن آباد سے ہالا، سن کرچاٹ، تھانہ عارب خان اور مکران کے ساحل کے ساتھ چلتی ہوئی عراق، ہمدان، نینوا اور اُر تک جاتی تھی‘۔

ایم ایچ پنوھر صاحب بھی اس قدیم شاہراہ کی حفاظت کے لیے قلعے کی تعمیر کو درست قرار دیتے ہیں، مگر وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ ہخامنشیوں یا ساسانیوں نے یہ قلعہ بنایا ہوگا۔ ان کی تحقیق کے مطابق 'یہ قلعہ یا تو انڈو باختری یونانیوں نے 945 سے 90 قبل مسیح میں بنایا ہوگا یا پھر 74 قبل مسیح سے عیسوی کے ابتدائی زمانے میں ستھین نے بنایا ہوگا اور اس قلعے سے ضرور اس تجارتی راستے کی حفاظت کی جاتی ہوگی‘۔

ہم ان دنوں کا ایک مختصر جائزہ لے لیتے ہیں کہ جب سندھ ایرانی حکومتوں کے اثر میں رہا اور دیکھتے ہیں کہ ان دنوں کے سیاسی و معاشی حالات کیسے تھے؟ ان کو سمجھنے میں یہ جائزہ بڑا مددگار ثابت ہونے والا ہے۔ اس میں ہماری مدد پروفیسر آرتھر کرسٹن نے کی ہے۔ فارس ایران کے جنوب میں مشہور صوبہ ہے، فارس کو اصل وطن اس لیے کہا جاتا ہے کہ شاہان ہخامنشی اپنے عروج سے پہلے یہاں کے رہنے والے تھے اور صوبہ فارس ان کی ریاست میں تھا۔ عہد ہخامنشی کی سیاسی روایات سلوکیوں کے بعد بھی قائم رہیں، جبکہ اشکانیوں نے قبیلہ ’واہہ‘ کی اعانت سے جو خود ان کی طرح، شمالی ایران کے باشندے تھے، صوبہ پارتھیا (یہ صوبہ بحر خزر کا جنوب مشرقی علاقہ تھا جو بعد میں خراسان کہلایا، مگر اس علاقے کا قدیم نام اس قبیلے کے نام پر پارتھیا تھا) کیونکہ سلطنت اشکانی (Arsacid) کا بانی ایک شخص ’اُشک‘ یا اُرشک تھا جو قبیلہ پرتھوا کا سردار تھا۔ اُشک نے 250 قبل مسیح میں، اس علاقے میں اپنی آزاد حکومت قائم کی جو آگے چل کر بڑی سلطنت بنی جس کی وسعت دریائے فرات سے دریائے سندھ تک تھی اور 500 سال تک رہی۔ اشکانی یا پارتھی سلطنت سے ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اقتدار مغرب جنوب سے شمال کی طرف منتقل ہوا۔ تقریباً 200 سال تک اشکانیوں نے صوبہ پارتھیا کے شہر ’ہکاٹوم پیلوس‘ جس کو یونانی زبان میں معنی ’شہر صد در‘ کے ہیں کو مرکز بنائے رکھا۔

سکندرِ اعظم اور اس کے بعد کے لوگوں نے مشرقی ایران کو صدیوں تک یونانی تہذیب کا ملجا و ماویٰ بنائے رکھا۔ تیسری صدی کے وسط میں ’ڈیوڈوٹس‘ (Diodotus) نے ایک آزاد سلطنت بنائی جس میں باختر (بلخ)، سغد اور مرو کے صوبے شامل تھے۔ دوسری صدی قبل مسیح کے ابتدائی زمانوں میں ’ڈیمیٹریوس‘ (Demetrius) جو غاصب ’یوتھیڈیموس‘ (Euthydemus) کا بیٹا تھا. اس نے پنجاب کو فتح کیا اور افغان و سندھ کے علاقوں پر قابض ہوگیا اور اسی طرح دوسری صدی قبل مسیح میں وادی کابل، وادی سندھ کی تمام یونانی ریاستیں ایک سلطنت ہوگئیں جن پر ’مینانڈر‘ (Menander) حکومت کرتا تھا جس نے آگے چل کر بدھ مذہب اختیار کرلیا۔

ان زمانوں میں وسط ایشیا میں قوموں کی بڑی نقل مکانیاں ہوئیں۔ ’ہون‘ قبائل جو اصلاً تُرک کے تھے جن کی رگوں میں منگولی اور چینی خون شامل تھا وہ دوسری صدی قبل مسیح کے ابتدائی برسوں میں، چین کے صوبہ ’کانسو‘ پر حملہ آور ہوئے جس کی وجہ سے ان اقوام کو اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی، ان کو اہلِ چین ’یو اے چی‘ اور ’دُوسُون‘ کہتے تھے، اور بعد میں دوسرے قبائل بھی اس نقل مکانی میں شامل ہوگئے۔ کچھ برسوں بعد ان کا ایک بڑا گروہ جو ’یو اے چی بزرگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے وہ ہجرت کرکے دریائے جیحون کے شمال میں آکر آباد ہوا۔

قوم ساکا (Scythians) کے بعض جتھوں کو اس نقل مکانی نے فرغانہ سے نکال کر آگے دھکیل دیا اور وہ باختر (بلخ)، اراخوزیا (Arachosia) جنوبی افغانستان (جس کو چینی ’کِپن‘ لکھتے ہیں) اور ’درنگیانا‘ (Drangiana) اور مغربی افغانستان کے صوبوں میں آن گھسے۔ چنانچہ ان صوبوں کا نام اس زمانے سے ’سکستان‘ یا ’ساکستان‘ پڑ گیا اور آج کل ’سیستان‘ کہلاتا ہے جو اس علاقے کا ایک حصہ ہے۔ ان ساکا قبائل نے جن کو تاریخ میں ’سندھو ستھین‘ (Indo-Scythian) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ بنیادی طور پر ایرانی تھے اور ہخامنشیوں کی نسل سے تھے مگر ان کے خون میں خانہ بدوشی کی جڑیں بڑی گہری تھیں۔

انہوں نے ایک مملکت بنا ڈالی جو شہنشاہ بزرگ متری دات (123 سے 88 قبل مسیح) کے زمانے سے اپنے آپ کو سلطنت پارتھیا کے ماتحت تسلیم کرتی رہی۔ اس مملکت کے بادشاہ ’ماویس‘ نے جو پہلی صدی قبل مسیح میں حکمران تھا، اپنی سلطنت کو وسیع کرتے ہوئے پنجاب کو اس میں شامل کرلیا۔ پہلی صدی قبل مسیح میں ہمیں ساکا خاندان کے ایک پارتھی بادشاہ ’گندوفاریس‘ (Gondophares) جس کا عہد تقریباً 20 عیسوی سے شروع ہوتا ہے، ان حالات سے ایسا لگتا ہے کہ اس نے خود کو اشکانیوں کی اطاعت سے آزاد کروا لیا تھا۔

گندوفاریس کی وفات کے بعد قندھار اور پنجاب پر یو اے چی (نژاد ساکا) کے ایک خاندان کا قبضہ ہوگیا جو کُشان کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان کے بادشاہ ’کُجولاکافیزس‘ اور اس کے جانشین ’ویمہ کادفیزس‘ نے ممالکِ یو اے چی و طُخار (یا تُخار) اور اس کے ساتھ ساکا قبائل کے مقبوضات کا ایک بڑا حصہ اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا۔ آخرکار 125ء کے بعد یہ سلطنت اس خاندان کے بادشاہ ’کنیشکا‘ کے قبضے میں آگئی جو بدھ مت کی کتابوں میں اس مذہب کے ایک جوشیلے مبلغ کی حیثیت سے مشہور ہے۔

سلطنت ہخامنشی کے اختتام کے 550 برس کے بعد دوبارہ ایران کا سیاسی مرکز جنوب کی طرف لوٹ آیا اور اہلِ فارس نے تمام ایران پر اپنا تسلط قائم کرلیا یوں ایک وسیع سلطنت ’ساسانی‘ نام سے قائم ہوئی۔ ارد شیر اول جو ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا تھا وہ 241ء میں فوت ہوا اور اس کے بیٹے ’شاپور اول‘ کی تاج پوشی 242ء میں ہوئی۔

ابن الندیم کے بیان کے مطابق 'مانی' پیغمبر کا سب سے پہلا واعظ، شاپور کی باضابطہ تاج پوشی کے دن بتاریخ یکم نسان، بروز اتوار مطابق 20 مارچ 242ء کو ہوا۔ مانی خود کہتا ہے کہ ارد شیر اول کے عہد میں اس نے سندھ کا سفر کیا تھا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دی اور یہ کہ ارد شیر کی وفات اور شاپور کی تخت نشینی کی خبر سن کر وہ ایران لوٹا اور خوزستان میں شاپور سے ملا۔ کبھی وقت ملا تو مانی کے مذہب اور اس کے سندھ کے سفر کے متعلق تفصیلی بات کریں گے کہ محققین کا کہنا ہے کہ مانی مذہب نے بدھ مت کا بھی اثر قبول کیا تھا۔

بہرام اول کے بعد اس کا بیٹا بہرام دوم تخت پر بیٹھا، اس کے زمانے میں روم سے پھر جنگ چھڑی، مگر قیصر کیروس کی اچانک موت کی وجہ سے رومیوں کو طیسفون سے واپس جانا پڑا۔ اس کے بعد بہرام دوم نے 284ء میں اپنے مشرقی صوبے سندھ کو وسیع کرنے کا سوچا اور کَچھ، کاٹھیاواڑ، مالوہ اور اس طرف کے دوسرے علاقوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنایا۔ فقط پنجاب اور وادی کابل پر اس کی حکومت نہیں تھی کہ وہاں کُشان کی حکومت تھی۔

ارد شیر (226 سے 241ء) خود کو داریوش کا وارث اور جانشین تصور کرتا تھا۔ چونکہ اس کو مغربی طرف سے تو خطرہ رہتا ہی تھا مگر شمال اور مشرقی سرحدوں سے بھی کسی یلغار کا خطرہ تھا، اس لیے ضروری تھا کہ ایک زبردست فوج رکھی جائے۔ سپاہیوں کو اہم علاقوں پر تعینات کرنا ابتدا سے ہی ساسانی سلطنت کے دھیان میں رہا کیونکہ گزری حکومتوں کا تجربہ ان کے سامنے تھا۔

صوبائی حکومت کا فرض ہوتا تھا کہ وہ سرحد پر معاوضے والی فوجی تعینات کرے البتہ جو سرحدی قلعے تھے ان کی حفاظت کے لیے مستقل فوج کے دستے رکھے جاتے تھے۔ ساسانیوں نے اپنے زمانے میں تجارت کو بڑی اہمیت دی اس لیے انہوں نے ان راستوں کو بھی بڑا اہم سمجھا جہاں سے بیوپاری قافلے گزرتے تھے۔ نقل مکانیوں کے ان زمانوں میں تجارت مسلسل ہوتی رہی۔ چونکہ خشکی کے قدیم راستے تھے جہاں سے بیوپاریوں کے قافلے مسلسل حرکت میں رہتے تھے اور مشرق سے شمال اور مغرب کی طرف یا مغرب سے شمال کی طرف ان کی قدیم گزرگاہیں تھیں۔ چین کے شہنشاہوں نے مغربی ممالک کے ساتھ تجارتی وسائل میں آسانیاں حاصل کرنے کی خاطر ایشیا کی ان ریاستوں کے ہاں سفیر بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔

اگر قدیم تاریخ دانوں یا موجودہ محققین کے ان راستوں کے حوالے سے کیے گئے کام اور راستوں کی طرف کی گئی نشاندہی کو دیکھیں تو ہمیں مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں خراسان اور روم تک، ٹیکسلا سے سندھ اور وہاں سے فارس، روم اور مصر تک قدیم راستوں کا ایک پھیلا ہوا جال ملے گا۔ سیہون سے لے کر برہمن آباد اور پٹیالا تک خشکی اور پھر باربیریکان (Barbarikon) کی مشہور بندرگاہ کی وجہ سے ایک راستہ سمندر سے مکران، فارس اور میسوپوٹیمیا تک چلا جاتا جبکہ دوسرا سمندری راستہ خلیجِ فارس اور کین سے اور بحیرہ احمر سے ہوتا ہوا اسکندریہ اور مصر پہنچ جاتا۔

کرسٹین سین بھی ایک قدیم تجارتی راستے سے متعلق ہمیں بتاتے ہیں، وہ رقم طراز ہیں کہ 'طیسفون، جو دجلہ کے کنارے پر سلطنت کا پایہ تخت تھا، وہاں سے ایک شاہراہ حلوان اور کنگاور سے ہوتی ہوئی ہمدان پہنچتی تھی جہاں سے مختلف راستے مختلف سمتوں میں جاتے تھے، ایک جنوب کو جو خوزستان اور فارس سے گزرتا ہوا خلیج فارس پہنچتا تھا، دوسرا رَے کو (جو طہران جدید کے قریب واقع تھا) جہاں سے وہ گیلان اور کوہستان البرز کی تنگ گھاٹیوں کو طے کرتا ہوا بحر خزر تک جاتا تھا یا خراسان میں سے گزر کر وادی کابل کے راستے سے سندھ میں جا داخل ہوتا یا پھر ترکستان اور گزرگاہ تارم سے ہوکر چین جا پہنچتا تھا۔ مورخ ’مارسیلینوس‘ کے زمانے سے میسوپوٹیمیا کے شہر بٹئی (Bataae) جو فرات کے کنارے کے قریب واقع تھا، میں ہر برس ستمبر کی ابتدا میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا جس میں سندھ اور چین کا مالِ تجارت بکثرت فروخت ہوتا تھا۔

'چین سے جتنا ریشم قدیم شاہراہ سے ایران جاتا، اہلِ ایران اس کا بڑا حصہ کپڑا بننے کے لیے خود ہی خرید لیتے تھے، یوں یہ بات ممکن ہوجاتی ہے کہ مغربی ممالک میں جتنی قیمت میں چاہیں ریشمی کپڑا فروخت کریں۔ یہ ایک بیوپاری سوچ تھی۔ ساری حکومتیں جانتی تھیں کہ بیوپار کے سوا ملکوں کو چلانا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے'۔

یہ ایک منظرنامہ ہے ان زمانوں کا جہاں ہم رنی کوٹ یا ’نئے رنی‘ کی قدامت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر دو اہم حقائق اور رہتے ہیں جن کا مختصر سا تعارف آپ سے کروانا ہے کیونکہ ان کے سوا رنی کوٹ کی قدامت کے متعلق جاننا شاید ممکن نہ رہے۔ ان میں سے ایک ’برہمن آباد‘ ہے جو رنی کوٹ کی سیدھ میں دریائے سندھ کے بہاؤ کے مشرق میں ہے اور دوسرا ’دیبل‘ بندر ہے جس کو یونانی Barbarikon کے نام سے بلاتے تھے۔

ہم گزرے زمانوں کے جنگل میں چلے آئے ہیں، جہاں ان دنوں کے جنگی قافلوں میں شامل گھوڑوں کی حرکت سے مٹی کے بگولے اٹھتے ہیں اور پہاڑی راستوں پر ان کی ٹاپوں کی آواز بہت دُور تک سنائی دیتی ہے کہ بارود کا ابھی استعمال نہیں ہوا تھا اس لیے تیر نیم کش ہی چلتے ہوں گے البتہ تلواروں کے نصیب میں یہ نیم کشی تحریر نہیں ہے۔

تاہم درد اور جیت کی خوشیوں کی آوازیں ساتھ ساتھ سنائی دیتی ہوں گیں، خیر یہ سارے حقائق ہیں جن پر ہم چاہیں بھی تو جُھوٹ اور افسانے کی چادر نہیں ڈال سکتے۔ رنی کوٹ کی قدیم اور خاموش دیواروں پر سے دوپہر کی دھوپ ڈھل رہی ہے مگر ہم ابھی یہاں ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد، پھر یہاں ملیں اور میں اس کوٹ کی جڑوں سے چمٹی ہوئی پُراسراریت کے راز آپ کو سُا سکوں۔


حوالہ جات:

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔