نقطہ نظر

کیا ایک اور ’تبدیلی‘ کی ہوا چل پڑی ہے؟

اب ہونے والی تبدیلی سے بھی پیغام جائے گا کہ پنڈی میں کسی طرح کے مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں ہی اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سخت سردی میں ہونے والی بارشوں اور اومیکرون وائرس سے قطع نظر پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت بہت پُرجوش دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہمیشہ کی طرح پُرسکون ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کچھ مشتعل دکھائی دیتی ہے۔

حکومتی عہدے داروں کے بیانات اور بوکھلاہٹ ایک طرف، لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے پارٹی اپنے مستقبل کے حوالے سے خطرات کا شکار ہے اور اتوار کو ہونے والی وزیرِاعظم عمران خان کی تقریر ان تمام افراد کو خاموش کرنے کے لیے کافی تھی جو کسی گڑبڑ کی افواہوں کی وجہ سے شبہات کا شکار تھے۔

پاکستانی شہریوں کے ساتھ بات چیت میں وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو وہ حزبِ اختلاف میں مزید خطرناک ثابت ہوں گے۔ ان کے اس بیان سے اتوار کی سرد رات تند و تیز مباحث شروع ہوگئے۔ اس بات کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی کہ وزیرِاعظم نے جو کچھ کہا وہ کیوں کہا، ہاں اس کی ایک وجہ اپنے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی عمران خان کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔

اگر ان کے لیے واقعی کوئی خطرہ موجود بھی ہے تو حکومت اس کا اقرار کیوں کررہی ہے؟ لیکن وہی بات کہ ہمارے سامنے عمران خان ہیں۔ اختصار اور احتیاط جیسے الفاظ ان کی لغت میں موجود ہی نہیں ہیں۔

آخر کوئی وزیرِاعظم کی زبانی غلطیوں پر کتنی مرتبہ ردِعمل دے سکتا ہے کیونکہ 2018ء کے بعد ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیے: صدارتی نظام کی بحث: ناکامی نظام کی نہیں ہمارے رہنماؤں کی ہے

تاہم اس خطرے اور مسلم لیگ (ن) کے نئے جوش و جذبے کے درمیان سول ملٹری تعلقات کا سوال جنم لے رہا ہے۔ (جن لوگوں کو ان افواہوں کے بارے میں نہیں پتا ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو نکال باہر کریں گی، بشرطیکہ اس بات پر اتفاق ہو انتخابات کب کروائے جائیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس عدم اعتماد کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہوگی)۔

اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو یہ ایک طرح سے سول ملٹری تعلقات میں پیش رفت ہی ہوگی کیونکہ اس طرح ملڑی ان افراد سے بات چیت کرنے پر مجبور ہوگی جنہیں اس نے سیاسی میدان سے باہر رکھنے کی کوشش کی تھی۔

ماضی میں جب بھی اس طرح تبدیلی آتی ہے تو اس سے قبل کم از کم کسی ایک جانب چہرے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ دل بھی بدل جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جنرل ضیا کے جانے کے بعد اقتدار میں آئیں اور میاں نواز شریف اس وقت ملک واپس آئے جب جنرل مشرف کی جگہ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف بنے۔

تاہم اس وقت تو تمام کردار وہی ہیں اور یہ بھی آگے کی جانب ایک قدم ہے۔ لیکن پھر تبدیلی کس چیز میں آئی ہے؟ کچھ لوگ کہیں گے ’تجربہ‘ بہت زیادہ ناکام رہا اور بحران اس قدر شدید ہے کہ اب واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔

مزید پڑھیے: کیا بقائے باہمی کے لیے ایک اور ’توسیع‘ ضروری ہے؟

لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی اس تبدیلی کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اگر کوئی نیا سیٹ اپ وجود میں آرہا ہے اور شاہراہِ دستور پر موجود دفاتر میں نئے لوگ آنے والے ہیں تو یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب فوجی بالادستی کو تسلیم کیا جائے گا، جیسا کہ 2007ء میں کیا گیا تھا اور اس کا ادراک ہمیں بعد میں ہوا تھا۔

2007ء کی طرح اس مرتبہ ہونے والی تبدیلی سے بھی پیغام جائے گا کہ پنڈی میں کسی طرح کے مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں ہی اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب بھی تبدیلی کسی مفاہمت کے نتیجے میں آتی ہے تو پھر کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجائے۔

یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے مسلم لیگ (ن) کو نمٹنا پڑے گا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ جماعت کوئی مداخلت نہیں چاہتی اور آئین کا مکمل نفاذ چاہتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔ ضمانتوں کی بات کرنا اور انہیں یقینی بنانا دو مختلف چیزیں ہیں، یہ بات ہم جیسے تبصرہ نگاروں سے بہتر وہ لوگ جانتے ہیں جو لوگ خود سیاست کرتے ہیں۔

تاہم اس ’تبدیلی‘ کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ یہ ’تبدیلی‘ واقعات کا ایک تسلسل ہے اور اس کا تعلق موجودہ بحران سے ہے۔ یہ اتنا بڑا اور شدید بحران ہے جس نے ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یوٹرن لینے پر مجبور کردیا ہے جس نے ہمیشہ حکومت یا اس کی عدم موجودگی کو کسی بھی واقعے کے جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس وقت ہماری معیشت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور جب بھی حکومت کی نااہلی کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد معاشی بحران ہی ہوتا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے یہاں پہلے عدم توازن یعنی سول ملٹری تعلقات اور دوسرے عدم توازن یعنی ہماری معیشت سے متعلق ہے، اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔

اگر ہماری موجودہ بحث کو سنا جائے اور اس پر یقین کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بالکل غیر متعلق چیزیں ہیں۔ جس طرح پی ٹی آئی نے کبھی اپنے حامیوں کو باور کروایا تھا کہ ملک کی معاشی بدحالی روایتی مین اسٹریم جماعتوں کی بدعنوانی کی وجہ سے ہے اسی طرح ان روایتی جماعتوں نے اب یہ خیال پھیلایا ہے کہ پی ٹی آئی کی نااہلی ہی خوشحالی اور پاکستانیوں کے درمیان دیوار بنی کھڑی ہے۔

تاہم، جیسے کہ اب پی ٹی آئی کو معلوم ہوگیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، مسائل کہیں زیادہ گہرے اور پیچیدہ ہیں اور ان کے حل طویل مدتی ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی سیاسی بساط

یہ ایک ایسی بحث ہے جسے ابھی عوامی سطح پر نہیں کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کے علاوہ اکثریت اس معاملے کو کرپشن اور ووٹ کی عزت کی طرح دیکھتی ہے۔ یوں ان سخت سیاسی اور معاشی فیصلوں کی پیچیدگی پر پردہ پڑجاتا ہے کہ جن کو ابھی لیا جانا ہے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا کہ ان مسائل کا کسی حد تک تعلق قومی سلامتی کی صورتحال سے بھی ہے۔

مثال کے طور پر پراپرٹی ٹیکس کے معاملے کو ہی دکھ لیجیے۔ شاہ رخ وانی نے اس معاملے پر کچھ تحقیق کی ہے۔ وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ کسی بھی حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن اگر کوئی حکومت اس حوالے سے سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار بھی ہو تو کیا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز میں اس کے حوالے سے مزاحمت کے سبب یہ ٹیکس کام کرے گا؟ درحقیقت کراچی جیسے شہر میں بھی مسائل کے حل کے لیے شہر کے اندر کئی اداروں کے دائرہ اختیار پر غور کیے بغیر 18ویں ترمیم یا سیاسی جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہرانا آسان ہے۔

یہ دونوں پہلو یعنی طاقت کا توازن اور معاشی معاملات حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بنیں گے پھر چاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو اور چاہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ابھی آئے یا دیر سے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو تبدیلی کی افواہیں شاید ہی کسی اچھے انجام کی امید ہوں۔ آرسن ویلس کی بات کے برعکس ہماری حکومتیں کبھی کہانی کا اچھا انجام نہیں کرسکتیں۔


یہ مضمون 25 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔