یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی (یوکے ایچ ایس اے) نے برطانیہ میں جنوری 2022 کے اولین عشرے میں بی اے 2 سے متاثر 400 سے زیادہ کیسز کو دریافت کیا اور عندیہ دیا کہ وائرس ک نئی قسم 40 دیگر ممالک میں بھی دریافت ہوچکی ہے۔
یو کے ایچ ایس اے کے مطابق اومیکرون کی اس ذیلی قسم پر تحقیق کی جارہی ہے۔
ادارے کے مطابق وائرل جینوم میں تبدیلیوں کے بارے میں ابھی بھی کافی کچھ غیر یقینی ہے اور اس حوالے سے نگرانی کی ضرورت ہے، کیونکہ بھارت اور ڈنمارک میں اس ذیلی قسم کے نتیجے میں کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
فرانس کے وبائی امراض کے ماہر انٹونی فلاہوٹ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم جس بات نے حیران کیا وہ یہ ہے کہ اومیکرون کی یہ ذٰلی قسم کتنی برق رفتاری سے ایشیا میں پھیلنے کے بعد ڈنمارک تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کی جانب سے وائرس کے ارتقا کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے جس میں مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں۔
بی اے 2 کو باعث تشویش قسم قرار نہیں دیا مگر انٹونی فلاہوٹ کا کہنا ہے کہ ممالک کو اس نئی پیشرفت کے بارے میں الرٹ رہنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فرانس میں جنوری کے وسط میں کورونا کے کیسز میں اضافے کی توقع کی جارہی تھی مگر ایسا نہیں ہوگا اور ممکنہ طور اومیکرون کی ذیلی قسم کے باعث ہوا، جو بہت زیادہ متعدی نظر آتی ہے مگر کم جان لیوا ہے۔
فرانس کے سرکاری طبی ادارے نے بتایا کہ ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ اس ذیلی قسم کی خصوصیات یعنی متعدی اور شدت کے حوالے سے یہ اومیکرون سے مختلف ہے۔
انٹونی فلاہوٹ نے بتایا کہ نگرانی رکھنے کا مطلب پریشان نہیں بلکہ محتاط ہونا ہے، کیونکہ اب ایسا لگتا ہے کہ بی اے 2 کی بیماری کی شدت اومیکرون کیسز جیسی ہی ہے، مگر اب بھی متعدد سوالات کے جواب حاصل کرنا باقی ہے اور اس نئی قسم پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
امپرئیل کالج لندن کے وائرلوجسٹ ٹام پیکوک کا کہنا تھا کہ بھارت اور ڈنمارت کے ابتدائی مشاہدات سے عندیہ ملتا ہے کہ اس ذیلی قسم کی شدت اومیکرون سے ڈرامائی حد تک مختلف نہیں اور موجودہ ویکسینز کی افادیت متاثر نہیں ہوگی۔
انہوں نے زور دیا کہ ابھی ہمارے پاس ایسے شواہد نہیں کہ یہ نئی متعدی قسم کتنی متعدی ہے، مگر ہم کچھ اندازے لگا سکتے ہیں۔