انارکلی دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں 'زیر حراست' چاروں طالبعلم رہا
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نیو انارکلی بازار میں ہوئے دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے چار بلوچ طلبا کو رہا کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو نیو انارکلی کے علاقے پان گلی میں امپرووائزڈ ایکسپلوزیو ڈیوائس (آئی ای ڈی) کے دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 26 زخمی ہو گئے تھے۔
دھماکے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے سرچ آپریشنز کیے اور شہر کے مختلف علاقوں میں طلبا کے ہاسٹلز پر چھاپے مار کر دیگر افراد سمیت 4 بلوچ طلبا کو بھی حراست میں لیا تھا۔
ان میں سے دو ایک نجی کالج میں فرسٹ ایئر کے طالب علم عمران اور آدم تھے جن کا تعلق بلوچستان میں تربت کے علاقے تجابان سے تھا، انہیں مسلم ٹاؤن کے کالج ہاسٹل سے حراست میں لیا گیا تھا۔
دوسری جانب نجی اکیڈمی میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کرنے والے طالب علم سمیر اور تربت کے علاقے ابسور سے تعلق رکھنے والے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے الطاف کو انارکلی کے علاقے میں واقع نجی ہاسٹل سے حراست میں لے لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: انارکلی بازار میں بم دھماکا، 3 افراد جاں بحق
ذرائع کے مطابق سمیر اور الطاف دونوں کو ہفتے کی صبح 3 بجے رہا کیا گیا تھا جبکہ باقی دو کو اسی روز شام 7:30 بجے کے قریب رہا کیا گیا۔
گرفتار کیے جانے والے طالب علموں میں سے ایک نے بتایا کہ انہیں گرفتار کرنے والے اہلکاروں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے۔
طالبعلم نے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے ان سے ان کے آبائی شہروں کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور انہیں مختلف مقامات پر منتقل کرتے رہے۔
قبل ازیں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لاہور نے ایک بیان میں ہاسٹلز پر چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے چاروں طلبا کی حراست کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
کونسل کے ترجمان نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان ہاسٹلز پر چھاپے مارے جہاں بلوچ طلبا رہائش پذیر تھے۔
انہوں نے ان چھاپوں کو امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسیوں کی کارروائی سے شہر میں موجود تمام بلوچ طلبا میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: انارکلی بازار دھماکا: تحقیقات میں سی آئی اے کی شمولیت، مزید مشتبہ افراد گرفتار
ترجمان نے الزام لگایا کہ طلبا کو ان کے امتحانات کے دوران ہراساں کیا جا رہا ہے، جس سے ان کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔
دریں اثنا پنجاب یونیورسٹی بلوچ کونسل نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’سوشل میڈیا پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے کسی بھی طالب علم کے مبینہ طور پر (انارکلی دھماکے میں) ملوث ہونے اور کسی بلوچ طالب علم کی گرفتاری/بدسلوکی کے حوالے سے ایک پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے، واضح کیا جاتا ہے کہ یہ پروپیگنڈا سراسر جعلی/بے بنیاد ہے اور دھماکے سے پنجاب یونیورسٹی کے کسی طالب علم کا تعلق نہیں ہے۔‘
سیکیورٹی ادارے چاروں طالب علموں کے اپنی تحویل میں ہونے سے انکار کر رہی تھیں۔
دوسری جانب پولیس نے پان منڈی میں تین روز قبل ہونے والے بم دھماکے کے بعد نقدی لوٹنے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
حافظ عاصم نامی شہری نے نیو انارکلی پولیس سے رابطہ کیا اور شکایت درج کرائی کہ بم پھٹنے سے پان منڈی کے علاقے میں واقع اس کی دکان بھی متاثر ہوئی۔
شہری نے بتایا کہ ان کے زخمی ملازم کو جب ہسپتال لے جایا گیا تو نامعلوم افراد اس کی دکان میں داخل ہوئے اور ساڑھے 7 لاکھ روپے مالیت کے پرائز بانڈز لے گئے۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دستیاب ہے۔