پاکستان

سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سپریم کورٹ میں ترقی کے خلاف قرارداد نے ہلچل مچادی

یہ قرارداد اس طرح کی ایک سازش تھی جیسی سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کی گئی تھی، رکن پاکستان بار کونسل

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے خلاف منظور کی گئی قرارداد نے ہلچل مچا دی ہے، کونسل میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ٓایک رکن نے اس قرارداد کو سندھ سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں بار کونسل کے نمائندے کے طور پر خدمات سر انجام دینے والے محمد یوسف لغاری نے کہا کہ انہوں نے پاکستان بار کونسل کے نومنتخب وائس چیئرمین حفیظ الرحمٰن چوہدری کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط لکھ کر ان کی غیر موجودگی میں قرارداد کی منظوری پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ وہ چھٹی پر تھے۔

خط میں کہا گیا کہ 'میں نے 21 جنوری (جمعہ) کے اجلاس کے ایجنڈے کو دیکھا جس میں اس طرح کی کسی بات پر غور کرنا شامل نہیں تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ میں قواعد کی ’مکمل تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کی وضاحت طلب

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ قرارداد اس طرح کی ایک سازش تھی جیسی سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کی گئی تھی، جس کے بعد انہیں سپریم کورٹ نے اعلیٰ جج کے طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔

جمعہ کو پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کے انتخاب کے فوراً بعد ایوان نے ایک قرارداد منظور کی اور میڈیا کو پریس ریلیز جاری کی جس میں ہائی کورٹ میں معاون قانونی عملے کی تعیناتیوں میں مبینہ بے ضابطگی سے متعلق زیر التوا کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کا فیصلہ ہونے تک ان کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت کی گئی تھی۔

پاکستان بار کونسل کی قرارداد میں کہا گیا کہ ججوں کی ترقی کے لیے سینیارٹی کے اصول، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر عمل کیا جانا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ایسے جج کو ترقی دی جائے جو بے ضابطگی یا خراب کارکردگی کے الزامات کا سامنا کررہا ہو، بالخصوص سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ترقی کے معاملے میں کہ جو اپنے رجسٹرار کے توسط سے اپنی نگرانی میں سندھ کے کچھ اضلاع میں معاون قانونی عملے کی تعیناتی سے متعلق سنگین الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر

قرارداد پر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تنقید کی گئی، جنہوں نے جمعہ کو بلائے گئے ایک ہنگامی اجلاس میں اس بیان پر سخت مؤقف لیا اور دعویٰ کیا کہ یہ پوری کونسل کا نہیں بلکہ صرف پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کا ذاتی نقطہ نظر تھا۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی مشترکہ قرارداد میں ان الزامات کو بھی مسترد کر دیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے صوبائی عدلیہ میں کوئی غیر قانونی تعیناتیاں کیں۔

انہوں نے پاکستان بھر کی تمام بارز سے پاکستان بار کونسل کے مبینہ بیان کے ساتھ ساتھ بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے چیف جسٹس گلزار احمد کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے متعلق ارسال کردہ خط کی مذمت کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مشترکہ قرارداد میں یاددہانی کروائی گئی کہ ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز مہم پر اصولی مؤقف اختیار کیا تھا اور وہ چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ جیسے آزاد سوچ رکھنے والے ججز کے ساتھ کھڑے رہیں گے جن کی دیانتداری ناقابلِ مواخذہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی: ’سینیارٹی قانونی تقاضا نہیں‘

قرارداد میں پاکستان بار کونسل سے یہ بھی مطالبہ کیا گیاکہ وہ اپنے وائس چیئرمین کی عہدے کا غلط استعمال کرنے اور ایک غیر مجاز پریس ریلیز جاری کرنے پر سرزنش کرے۔

اب پاکستان بار کونسل کے رکن محمد یوسف لغاری نے اپنے دو صفحات پر مشتمل خط میں سوال کیا کہ کیا اسی طرح ججوں کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہائی کورٹ کے بعض ججز کے خلاف بہت سی شکایات ہیں لیکن ایسی قرارداد جو مبینہ طور پر ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی ہے، صرف ایک پنڈورا باکس ہی کھولے گی۔

قراداد میں مزید کہا گیا کہ کونسل کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز پاکستان بار کونسل، سندھ بار کونسل اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اس مؤقف کے برعکس ہے جس کے تحت انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ان کی سنیارٹی کی وجہ سے ترقی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کیلئے نامزدگی کا طریقہ کار طے کرنے کی درخواست

انہوں نے لکھا کہ یہ 24 نومبر 2021 کو ہونے والے پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بھی خلاف تھا جہاں وائس چیئرمین کے اعتراضات پر غور کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اختیار نہیں کہ وہ کمیٹی کے ایک رکن ریاضت علی سحر کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف خط لکھے۔

محمد یوسف لغاری نے اپنے خط میں یاد دلایا کہ طویل بحث کے بعد معاملہ دوبارہ ایگزیکٹو کمیٹی کے پاس ایک نئے فیصلے کے لیے بھیج دیا گیا تھا اور جہاں تک ان کے علم میں ہے اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے کمیٹی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔

خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو وکلا برادری کی اعلیٰ تنظیم یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ جج نے وکلا کے ساتھ بدتمیزی کی؟

اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایک ایماندار، آزاد اور قابل جج ہیں۔

اپنے خط میں یوسف لغاری نے جمعہ کو جاری کردہ اپنی مشترکہ قرارداد میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسویسی ایشن کے مؤقف کی بھی حمایت کی۔

یورپی ایجنسی کا پی آئی اے کی پروازوں سے پابندی اٹھانے سے انکار

لتا منگیشکر کی صحت کے حوالے سے جھوٹی خبروں پر اہل خانہ پریشان

سعودی فوجی اتحاد کی یمن کی جیل پر فضائی حملے کی تردید