’تو جھوم‘ کی موسیقی روح سے ترتیب دی گئی، عابدہ پروین
’صوفی’ کلام کی ملکہ عابدہ پروین نے کہا ہے کہ کوک اسٹوڈیو سیزن 14 کے ان کے اور نصیبو لال کے گانے ’تو جھوم‘ کی موسیقی کو موسیقار نے روح اور دل سے ترتیب دیا، جس وجہ سے لوگوں نے اسے پسند کیا۔
عابدہ پروین اور نصیبو لال کا کلام ’تو جھوم‘ 14 جنوری کو ریلیز کیا گیا تھا، جسے کافی پسند کیا جا رہا ہے، تاہم ساتھ ہی مذکورہ کلام کی دھن پر بھی نیا تنازع سامنے آیا ہے۔
سندھ کے ضلع عمر کوٹ کی نوجوان گلوکارہ نرملا مگھانی نے دعویٰ کیا ہے کہ موسیقار ذوالفقار خان المعروف ذوالفی نے ان کی دھن چوری کرکے ’تو جھوم‘ کی موسیقی ترتیب دی۔
تاہم ذوالفی نوجوان گلوکارہ کے دعوے کو مسسترد کر چکے ہیں، تاہم مذکورہ معاملے پر نئی بحث چھڑ چکی ہے۔
’تو جھوم‘ کی موسیقی کے چوری ہونے کے الزامات اور تنازع سے ہٹ کر عابدہ پروین نے کہا ہے کہ ذوالفی نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ’تو جھوم‘ کی موسیقی روح اور دل سے ترتیب دی۔
عابدہ پروین نے ’ایکسپریس ٹربیون‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ’تو جھوم‘ اور کوک اسٹوڈیو کے ساتھ کام کرنے کے تجربے پر بھی کھل کر بات کی اور بتایا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے موسیقار جانتے ہیں کہ وہ کس طرح کے کلام گاتی ہیں۔
انہوں نے ’تو جھوم’ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفی کی جانب سے نصیبو لال کو ان کے ساتھ شامل کرکے گانے کو منفرد بنانے کا تجربہ اچھا رہا، کیوں کہ وہ بھی ان کی طرح سینیئر گلوکارہ اور مختلف گائکی کی تاریخ رکھتی ہیں۔
انہوں نے تصوف اور صوفیانہ موسیقی پر بھی بات کی اور کہا کہ آغاز میں وہ صرف بزرگان دین کے کلاموں کو محفلوں اور درگاہوں پر گاتی تھیں مگر بزرگان دین کے کلام کو جہاں بھی گایا جاتا ہے وہ جگہ درگاہ بن جاتی ہے۔
انہوں نے دنیا سے شدت پسندی اور نفرت کے خاتمے کے لیے تصوف کی پرچار پر بھی زور دیا اور خدا ہر انسان کے دل میں موجود ہے، ان سے ہم کلام ہونے کے لیے مقام بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
عابدہ پروین کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے صوفیانہ کلام گانے کا مقصد خدا کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے اور ان کے پیغام کا ٹی وی سمیت دیگر ذرائع سے باآسانی عوام تک پہنچ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کائنات کے تخلیق کار نے انسان کو خلیفہ بنا کربھیجا اور انسان کے پیغام رساں بننے سے مرد اور عورت کا تصور غیر اہم بن جاتا ہے، دنیا کو جنسی تفریق سے بڑھ کر سوچنا چاہیے۔
انہوں نے انسانیت اور تصوف کو ہی راہ نجات قرار دیا اور کہا کہ اس سے انسان مذہبی، سیاسی اور صنفی تفریق سے بڑھ کر دنیا کے لیے سوچنے لگتا ہے۔
عابدہ پروین کا کہنا تھا کہ اس کائنات کے تخلیق کار کا اصول ہے کہ وہ انہیں بھی رزق دینا بند نہیں کرتا جو کہ غافل رہتا ہے، اس لیے انسانیت اور دنیا کی بہتری کے لیے تمام جنسوں کو تصوف پر توجہ دینی چاہیے۔