نیوی کی غیر قانونی تعمیرات کےخلاف عدالتی حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن سے پاک بحریہ کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف اپنے فیصلے پر تعمیل کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی اور عدم تعمیل کی صورت میں انہیں ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حکم کے خلاف سابق چیف آف نیول اسٹاف ریٹائرڈ ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے راول جھیل کے کنارے قائم نیوی سیلنگ کلب کو تین ہفتوں میں مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے میں سملی ڈیم روڈ پر واقع بحریہ کے فارم ہاؤسز کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سابق نیول چیف اور غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے دیگر اہلکاروں کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم دے دیا
عدالت نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ فیصلہ وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں تاکہ وہ وفاقی دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی کی بحالی کے لیے اقدامات کر سکیں۔
ریٹائرڈ ایڈمرل ظفر عباسی کے وکیل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنگل رکنی بینچ نے دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیے بغیر سابق نیول چیف پر ذمہ داری عائد کردی ہے۔
وہ عدالت سے اپنے مؤکل کے خلاف فوجداری کارروائی کی ہدایت کے معاملے میں عبوری ریلیف مانگ رہے تھے، لیکن عدالت نے انہیں تسلی رکھنے کو کہا۔
جب بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود سے کیس کی حیثیت کے بارے میں پوچھا اور فیصلہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے جانے سے متعلق سوال کیا تو قاسم ودود نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس کے بعد جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے انہیں سیکریٹری کابینہ سے عدالتی حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ حاصل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ حکم پر عمل نہ ہونے کی صورت میں سیکریٹری کو بدھ کو ذاتی طور پر بلایا جائے جب عدالت دوبارہ اس کیس کی سماعت کرے گی۔
مزید پڑھیں: پاک بحریہ نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا
سماعت کے دوران اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر عباسی نے کبھی اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ ہی وہ سرکاری زمین پر قبضہ کرنے میں ملوث ہیں۔
اپنے حکم میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کیا تھا کہ پاک بحریہ نے راول جھیل کے پشتہ بند پر واقع زمین پر نیشنل پارک کے ایک محفوظ علاقے میں تجاوزات کیں، قانونی اختیار اور دائرہ کار کے بغیر زمین پر قبضہ غیر قانونی تھا۔
انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر محمود عباسی نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور 1997 کے ایکٹ اور 1960 کے آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ شدہ اراضی پر غیر قانونی عمارت کا افتتاح کر کے اپنے آئینی فرض سے تجاوز کیا۔
انہوں نے وفاقی حکومت کو سابق نیول چیف کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: نیوی کلب کو سیل نہ کرنے پر حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست
ایڈووکیٹ اشتر اوصاف نے نشاندہی کی کہ سیلنگ کلب 1994 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ اس وقت کے وزیر اعظم کی جانب سے بحریہ کو الاٹ کی گئی زمین پر بنایا گیا تھا۔
جب جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ماحولیاتی کنسلٹنٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور اسے ماحولیاتی نظام اور راول جھیل کے لیے نقصان دہ قرار دیا تو وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ راول جھیل کی آلودگی سے متعلق 2015 میں تیار کی گئی رپورٹ میں سیلنگ کلب کے خلاف کوئی منفی نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔
اشتر اوصاف کے مطابق بینچ نے سیلنگ کلب پر انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ (ای آئی اے) رپورٹ کو نظر انداز کیا جس میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب کی سفارش کی گئی تھی۔