پاکستان

نور مقدم کیس: مرکزی ملزم ظاہر بخشی خانہ سے عدالت میں پیش

ملزم کو کرسی پر بٹھا کر انتہائی لاغر حالت میں کمرہ عدالت میں لایا گیا، ملزم کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی ہے، وکیل کا مؤقف

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سماعت کے دوران پولیس اہلکار نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بخشی خانہ سے عدالت لے گئے جہاں ان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ملزم کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔

آج کی کارروائی کے دوران جونیئر وکیل عثمان ریاض گل مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی نمائندگی کر رہے تھے کیونکہ ملزم کے وکیل ایڈووکیٹ سکندر ذوالقرنین سلیم عدالت میں پیش نہیں ہوئے، بعد میں وہ ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شامل ہوئے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع

ذوالقرنین کے ویڈیو لنک کا حصہ بننے سے قبل جونیئر وکیل ریاض گل نے عدالت کی توجہ ملزم ظاہر کی سماعت سے غیرحاضری کی طرف مبذول کرائی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں تین بار کہہ چکا ہوں کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

جب جج نے بھی ظاہر کی غیر حاضری کا نوٹس لیا تو شریک ملزم اور تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی نے انہیں بتایا کہ ظاہر کی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ چل سکے۔

اس پر جج عطا ربانی نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے جیل حکام کو خط لکھا ہے جس میں ظاہر کا میڈیکل چیک اپ کرانے کی ہدایت کی ہے۔

بالآخر ظاہر کو کرسی پر بٹھا کر انتہائی لاغر حالت میں پولیس اہلکار کمرہ عدالت میں لے کر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

ملزم ظاہر کے عدالت پہنچنے پر وکیل ریاض گل نے کہا کہ ملزم کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔

جج عطا ربانی نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ انہوں نے جیل حکام کو ظاہر کے طبی معائنے کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا۔، جس کے بعد پولیس اہلکار ظاہر کو واپس بخشی خانہ لے گئے۔

دریں اثنا کمرہ عدالت میں وکیل ریاض گل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ظاہر کے طبی معائنے اور علاج کے حوالے سے تحریری حکم جاری کرے، جس پر جج عطا ربانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پچھلی سماعت پر تحریری حکم جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے، سپریم کورٹ

وکیل نے جواب دیا کہ گزشتہ سماعت پر جج کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اسی لیے معاملہ دوبارہ عدالت میں لے جایا جا رہا ہے، تاہم جج نے درخواست کا جواب نہیں دیا۔

ظاہر کی ذہنی حالت کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی درخواست کو عدالت پہلے ہی خارج کر چکی ہے کیونکہ عدالت کا ماننا تھا کہ یہ درخواست صرف مجرمانہ ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے دائر کی گئی تھی۔

قبل ازیں 6 جنوری کو جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ درخواست اس وقت دائر کی گئی جب مقدمے کی سماعت ختم ہونے کے قریب تھی اور اس معاملے کو پہلے عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تھا۔

اس موقع پر کہا گیا تھا کہ حقائق اور حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں ہے اور اس طرح کی سوچی سمجھی درخواست صرف مجرمانہ ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے اٹھائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

ملزم ظاہر کے وکیل ایڈووکیٹ سلیم بعد ازاں ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا حصہ بنے اور عدالت نے وکیل کی عدم موجودگی پر جونیئر وکیل ریاض گل کی سرزنش کی۔

گزشتہ سماعت پر ایڈووکیٹ سلیم کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی تھیں اور بتایا گیا تھا کہ وکیل کو کووڈ-19 ہو گیا ہے۔

ریاض گل نے عدالت سے استدعا کی کہ ایڈووکیٹ سلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سماعت ملتوی کی جائے کیونکہ وہ بیمار ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

اس بات پر جج عطا ربانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وکیل کا کام کارروائی میں مدد کرنا ہے نہ کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا۔

ریاض گل نے پھر کہا کہ ہم مقدمے کی سماعت میں تاخیر نہیں چاہتے اور درخواست کی کہ سینئر وکیل کو ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر بدستور وکالت نامے پر دستخط سے انکاری

عدالت کی منظوری پر ایڈووکیٹ سلیم بعد میں ویڈیو لنک کے ذریعے سیشن میں شامل ہوئے اور مقتول نور مقدم کے والد اور کیس میں شکایت کنندہ شوکت علی مقدم سے جرح کی۔

خیال رہے کہ شوکت مقدم نے گزشتہ سماعت پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

جرح کے دوران انہوں نے بتایا کہ انہیں 2010 میں سفارت کار بنایا گیا اور 2013 تک انہوں نے جنوبی کوریا میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ دسمبر 2014 میں ریٹائر ہوئے۔

جب ان سے ان کے خاندان کی تفصیلات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی بیٹی سارہ کی عمر 35 سال، بیٹے محمد کی عمر 33 اور نور کی عمر 27 سے 28 سال کے لگ بھگ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا محمد علی کبھی بھی تفتیش کا حصہ نہیں بنا جبکہ ان کی اہلیہ کا نام کوثر ہے۔

وکیل نے پھر قتل کیس کی طرف توجہ دلائی اور شکایت کنندہ سے پوچھا کہ نور کے قتل سے ایک دن قبل جب وہ 19 جولائی کو نکلے تھے تو کیا اس وقت نور گھر پر تھیں۔

شوکت علی مقدم نے جواب دیا کہ جب ہم اپنے گھر سے نکلے تو ہمیں یقین تھا کہ وہ گھر پر ہے لیکن وہ گھر پر نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: عدالت کا ظاہر جعفر کو اپنا رویہ ’درست‘ کرنے کی ہدایت

انہوں نے مزید سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ نور نے اپنی والدہ کو فون کیا اور بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ لاہور جارہی ہے۔

تاہم شوکت نے کہا کہ لیکن نور اور اس کی والدہ کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کا شکایت میں ذکر نہیں تھا، انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ شکایت میں نور کی والدہ کا فون نمبر بھی نہیں بتایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نور دو سے تین بار بتائے بغیر گھر سے چلی گئی لیکن وہ جہاں بھی جاتی تھی تو وہاں پہنچنے کے بعد مطلع کرے گی۔

شوکت مقدم کا مزید کہنا تھا کہ جب نور نے انہیں لاہور روانہ ہونے کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا تو یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کے ساتھ جارہی ہیں، اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب نور کا فون بند ہونے کا پتہ چلا تو اس وقت انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔

سابق سفارت کار نے کہا کہ انہیں اس پولیس افسر کا نام یاد نہیں جس نے انہیں فون کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے تفتیش کے دوران یہ معلومات شیئر کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے

انہوں نے بتایا کہ ظاہر نے انہیں واٹس ایپ پر کال کی تھی لیکن میں نے تفتیش کے دوران کبھی شیئر نہیں کیا کہ ظاہر نے مجھے واٹس ایپ پر کال کی ہے۔

شوکت مقدم نے کہا کہ انہوں نے نور کو کبھی ظاہر کے گھر جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی ظاہر کے والدین سے اسے روکنے کے لیے کہا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کیس سے متعلق اور کارروائی کے دوران 5 صفحات پر دستخط کیے تھے۔

ایڈووکیٹ سلیم نے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا کہ میرے اگلے سوال پر ناراض نہ ہوں، آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق سفیر ہیں، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا رشتہ ہو سکتا ہے؟۔

جواب میں شوکت نے کہا کہ یہ دونوں یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔

لیکن اس موقع پر ظہیر کی والدہ اور شریک ملزم عاصمہ آدم جی کے وکیل اسد جمال نے سماعت میں مداخلت کرتے ہوئے استدعا کی کہ اس سوال کو ڈراپ کر دیا جائے کیونکہ یہ مناسب سوال نہیں ہے۔

تاہم ایڈووکیٹ سلیم نے کہا کہ شوکت اپنا جواب دے رہے ہیں، انہیں جواب دینے دیں، ظاہر اور نور کا طویل عرصے سے رشتہ تھا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کا پولیس سے ہاتھا پائی کے مقدمے میں ریمانڈ

لیکن شوکت کے وکیل شاہ خاور اور بابر حیات سومرو نے دوبارہ سوال پر اعتراض کیا۔

سومرو نے کہا کہ قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 146 کے تحت توہین آمیز سوالات نہیں پوچھے جا سکتے، جس پر جج نے ایڈووکیٹ سلیم کو سوال چھوڑنے کو کہا۔

ایڈووکیٹ سلیم نے پھر کہا کہ نور اور ظاہر کلاس فیلو تھے اور شوکت سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ ظاہر کو لندن سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔

شوکت مقدم نے کہا کہ نور اور ظاہر کلاس فیلو تھے اور نور اور ظاہر کی جلاوطنی کے حوالے سے انہیں کوئی علم نہیں تھا، انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پولیس نے ان کی موجودگی میں ظاہر کے گھر کی تلاشی لی تھی۔

جرح کے بعد ایڈووکیٹ سلیم نے شوکت مقدم سے سخت سوالات پوچھنے پر ان سے معذرت کی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ’غلط الفاظ‘ پر جج نے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا

عدالت نے کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی۔

قبل ازیں سماعت کے موقع پر تفتیشی افسر کا بیان قلمبند کیا گیا جنہوں نے مقدمے کی تفتیش کے حوالے سے تمام واقعات کی تفصیل سنائی۔

یہ فلمیں نہیں نوجوان فلم سازوں کے خواب تھے

سندھ کی عظیم دیوار کس نے تعمیر کی تھی؟

پیٹ کمنز نے عثمان خواجہ کو ’شیمپیئن شاور‘ سے بچا کر مداحوں کے دل جیت لیے