نوواک جوکووچ کا معاملہ اور قانون کی عملداری
کورونا وائرس کی ابتدا سے ہی آسٹریلیا جانے کے خواہش مند افراد کو دنیا میں امیگریشن اور قرنطینہ کے سخت ترین عمل سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ اگرچہ آسٹریلیا کے ویزا رکھنے والے ویکسینیٹڈ افراد کے لیے اس میں کچھ نرمی ضرور کی گئی تھی تاہم جن افراد نے ویکسین نہیں لگوائی تھی ان کے لیے مشکلات بدستور موجود تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ویکسین نہ لگوانے والے ٹینس کھلاڑی نوواک جوکووچ نے اعلان کیا کہ وہ آسٹریلین اوپن میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کے لیے میلبرن جارہے ہیں اور انہیں قرنطینہ سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے تو آسٹریلوی شہریوں اور دنیا بھر کے لوگوں کو حیرت ہوئی۔
کچھ لوگوں کے نزدیک یہ اجازت دراصل امیر اور طاقتور افراد کے حق میں قوانین کو نرم کرنے کے مترادف تھی جو کسی عام آدمی کے لیے نہیں کی جاتیں۔ جب ٹینس کے ایک مشہور کھلاڑٰی ہونے کے باوجود بھی وائرس نے انہیں نہیں چھوڑا تو پھر امیگریشن انتظامیہ نے ان کے لیے قوانین میں نرمی کیوں کی؟
تادمِ تحریر نوواک جوکووچ کے ویزا کا معاملہ غیر یقینی کا شکار ہے، ویزا قوانین کا دوہرا معیار اس قانون پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا کسی قانون کا نفاذ اتنا غیر منصفانہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے پاس اس پر عمل کرنے کی کوئی معقول وجہ ہی نہ ہو؟
مزید پڑھیے: جوکووچ آسٹریلیا میں دوبارہ زیر حراست، عوام کے لیے خطرہ قرار
یوں ’ایک اصول ان کے لیے اور دوسرا ہمارے لیے‘ کا مسئلہ بار بار سر اٹھاتا ہے۔ برطانیہ میں وبا کے دوران امیر اور طاقتور افراد اکثر ناقابلِ یقین حد تک یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ جن قوانین کے تحت باقی لوگوں پر پابندیاں عائد ہیں انہی قوانین کے تحت انہیں آزادی حاصل ہے۔
مثال کے طور پر برطانوی وزیرِاعظم کے سابق معاون ڈومینک کمنگز کا کہنا تھا کہ ان کا ڈرہم سے برنارڈ کیسل تک 50 میل کا دو طرفہ سفر ایک ’مختصر سفر‘ تھا، یا پھر ڈاؤننگ اسٹریٹ کے عہدیداروں کے اس دعوے کو دیکھیے کہ ان کی رات گئے ہونے والی چیز اینڈ وائن پارٹیاں دراصل کام کے حوالے سے ہونے والی ملاقاتیں تھیں۔
قانونی فلسفی گستاؤ راڈبرچ نے ایک ایسے نظام کے نقصانات کے حوالے سے خبردار کردیا تھا کہ جہاں کچھ چنیدہ افراد کے لیے ایک خاص قانون ہو اور باقی لوگوں کے لیے علیحدہ قانون ہو۔ راڈبرچ جمہوریہ ویمار کے دوران جرمن وزیرِ انصاف رہے اور بعد میں ایک معزز قانونی ماہر رہے۔ کسی قانون کو بنانے اور اسے نافذ کرنے کے حوالے سے ہم ان کے خیالات پر نظر ڈالتے ہیں۔
راڈبرچ کہتے ہیں کہ اگر کوئی قانون یکساں معاملات کو یکساں طور پر نہیں دیکھتا تو وہ اتنا غیر منصفانہ ہوتا ہے کہ وہ پورے قانونی نظام کے استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر وسیع تر آبادی یہ سمجھتی ہے کہ کسی شخص کو بغیر کسی معقول وجہ کے کسی قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، تو باقی سب لوگ اس قانون پر سوال اٹھائیں گے۔ شاید وہ یہ سوال بھی اٹھائیں کہ آخر وہ بھی اس قانون پر عمل کیوں کریں، اور اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسا کرے تو پھر اس قانون کے نفاذ کی وجہ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
اس کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ ڈومینک کمنگز کے سفر کے بعد عوام کی جانب سے کورونا پابندیوں پر عمل درآمد میں واضح کمی دیکھی گئی تھی۔
یہ رجحان صرف مذکورہ قانون کو ہی نہیں بلکہ پورے نظام کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر شہریوں کا کسی ایک قانون پر سے اعتماد اٹھ جائے تو ممکن ہے کہ وہ دیگر قوانین کے حوالے سے بھی شکوک کا شکار ہوجائیں اور ان پر بھی عمل کرنا ترک کردیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے غیر یقینی اس قدر بڑھ جائے گی کہ معاشرے کا انتظام ناممکن ہوجائے گا۔
راڈبرچ کے مطابق اگر کوئی قانون ایک جیسے معاملات کو یکساں طور پر نہیں دیکھتا تو پھر وہ قانون ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قانونی نظام کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ مستحکم ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قانون کیا ہے اور اس کا اطلاق کب ہوتا ہے۔
اگر ایک قانون سب کو یکساں طور پر نہیں دیکھتا تو اس سے الٹا اثر ہوتا ہے اور خود قانون کے حوالے سے ہی غیر یقینی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر غیر یقینی پیدا کرنے والے قوانین کی تعداد زیادہ ہوجائے تو پھر نظام ہی تباہ ہوجائے گا۔ ایسا قانون جو کسی قانونی نظام کو ہی کمزور کردے وہ واقعی قانون نہیں ہو سکتا، اور حکام کو انہیں بنانے یا برقرار رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
’جوکووچ کو گھر بھیجو‘
راڈبرچ شاید یہی نتیجہ اخذ کرتے کہ جوکووچ کو دیا گیا استثنیٰ غیر قانونی تھا اور اسے منسوخ کردینا چاہیے تھا۔ یکساں معاملات کو یکساں طور پر حل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جوکووچ سے صرف یہ پوچھتے کہ انہیں ویکسین لگی ہوئی یا نہیں۔ اور چونکہ انہیں ویکسین نہیں لگی تھی اس وجہ سے حکومت انہیں ویزا نہ دینے میں حق بجانب ہوتی۔
جوکووچ کے مداح شاید یہ دعویٰ کریں کہ چونکہ انہیں حال ہی میں کورونا ہوا تھا اس وجہ سے ان کے اندر ویکسین کے مساوی قوت مدافعت موجود ہے تاہم اس سے قطع نظر یہ تاثر بہت واضح ہے کہ انہیں دیگر لوگوں کی نسبت مختلف سلوک روا رکھا گیا اور یوں اس قانون کی صداقت پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: جوکووچ کی اپیل مسترد، آسٹریلین اوپن میں شرکت نہیں کر سکیں گے
حقیقت یہ ہے کہ نوواک جوکووچ کا معاملہ اتنا مبہم ہے کہ ہم اس قانون کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکے۔ ہمارے قانونی نظام کے استحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ قوانین بنانے والے افراد ان قوانین اور اس حوالے سے کسی بھی استثنیٰ کے حوالے سے شفاف رہیں۔
کورونا پابندیوں پر پہلے ہی سوال کیا جا رہا تھا اور نوواک جوکووچ کے معاملے نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ زیادہ مراعات یافتہ لوگوں کو کورونا پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھ کر عام لوگوں نے بھی قوانین کو توڑنا شروع کردیا ہے۔ امکان ہے کہ جیسے جیسے ان قوانین کی حقیقت سامنے آئے گی ویسے ویسے لوگوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگا۔
یہ مضمون 16 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزن میں شائع ہوا۔
لکھاری نیو کیسل یونیورسٹی میں قانون کی لیکچرار ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔