یہ بات جنوبی افریقہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
نیشنل انسٹیوٹ آف کمیونیکیبل ڈیزیز (این آئی سی ڈی) کی اس تحقیق میں جنوبی افریقہ میں کورونا کی اولین 3 لہروں میں بیمار ہونے والے 11 ہزار 600 مریضوں کا موازنہ اومیکرون سے متاثر ہونے والے 5 ہزار 100 افراد سے کیا گیا۔
خیال رہے کہ عالمی سطح پر اومیکرون کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر سنگین شدت کے کیسز کی شرح کم ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے اور اموات کی تعداد بھی سابقہ اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔
سائنسدانوں کی جانب سے یہ تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بیماری کی کم شدت کی وجہ ویکسینیشن یا سابقہ بیماری تو نہیں یا کورونا کی نئی قسم بذات خود دیگر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا نہیں۔
اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون سے بیمار ہونے پر سنگین بیماری کا خطرہ ایک چوتھائی حد تک کم ہونے کی وجہ ممکنہ طور پر وائرس خود ہے۔
تحقیق کے مطابق اومیکرون کی لہر میں سنگین نتائج کی شرح میں کمی یقیناً ویکسینیشن یا سابقہ بیماری نے کردار ادا کیا مگر وائرس کی جان لیوا صلاحیت میں بھی ڈیلٹا کے مقابلے میں 25 فیصد کمی آئی۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تو ان کو حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا، مگر یہ سابقہ تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں۔
23 دسمبر کو برطانیہ کی جانب سے جاری ڈیٹا میں بتایا گیا تھا کہ اومیکرون سے مریضوں کے زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
ڈیٹا کے مطابق اومیکرون قسم کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ کم نظر آتی ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتباہ بھی کیا گیا کہ اگرچہ بیماری کی شدت معمولی ہوسکتی ہے مگر اس کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کے باعث طبی نظام پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
اس ڈیٹا میں یکم سے 14 دسمبر کے دوران برطانیہ میں پی سی آر ٹیسٹوں سے مصدقہ کووڈ کیسز کے ریکارڈ کو دیکھا گیا جس میں 56 ہزار کیسز اومیکرون جبکہ 2 لاکھ 69 ہزار ڈیلٹا کے تھے۔