پاکستان

افتخار چوہدری بدسلوکی کیس میں سابق کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی درخواستیں مسترد

سپریم کورٹ نے 6 جون 2018 کو سابق چیف جسٹس سے مبینہ بدسلوکی میں ملوث تمام پولیس عہدیداران کو جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کے ساتھ بدسلوکی میں ملوث سابق چیف کمشنر اسلام آباد خالد پرویز اور ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی کی درخواستیں مسترد کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون 2018 کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے سابق چیف جسٹس سے مبینہ بدسلوکی میں ملوث تمام پولیس عہدیداران کو توہین عدالت الزامات کے تحت جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم خالد پرویز اور ڈی سی چوہدری محمد علی گرفتار نہیں کیے گئے تھے کیونکہ انہیں عدالت کے برخاست ہونے تک قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افتخار چوہدری بدسلوکی کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بحال

سماعت کے دوران سینئر وکلا عمر اسلم نے محمد علی اور راجا مقصد نے خالد پرویز کی نمائندگی کی۔

وکلا نے دلائل دیتے ہوئے خبروں اور سابق وزیر اعظم ظفراللہ خان جمالی کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں مرحوم وزیر اعظم نے کہا تھا کہ دونوں سرکاری افسران کا کردار اچھا تھا اور انہوں نے سابق چیف جسٹس کو اس وقت بچانے کی کوشش کی جب وہ اپنے گھر سے سپریم کورٹ جانے کے لیے نکلے تھے، جہاں ان کو مس کنڈکٹ کے ریفرنس کا سامنا کرنے کے لیے جوڈیشل کونسل کی جانب سے طلب کیا گیا تھا۔

وکلا نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لال مسجد واقعے کے باعث اس وقت کی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کچھ اقدامات کرنا اور افتخار محمد چوہدری کو پیدل عدالت عظمیٰ تک آنے سے روکنا ضروری تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ درخواستیں منظور کرلی گئی تو انتظامیہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو کبھی بھی اپنی رہائش گاہوں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے گی۔

مزید پڑھیں: سابق چیف جسٹس سے بدسلوکی، سزا یافتہ پولیس افسر نے معافی مانگ لی

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو پیدل جانے سے کیوں روکا گیا؟ جب انہوں نے اپنی جان کا خطرہ مول لے لیا تھا تو پھر ان کو کیوں روکا گیا۔

بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ جن درخواستوں اور اخبارات کے تراشوں کو وکلا کی جانب سے اب پیش کیا جارہا ہے ان پر اس وقت انحصار نہیں کیا گیا جب ان کی انٹراکورٹ اپیل عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھی۔

سابق وزیراعظم کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریماکس دیے کہ یہ بیان اس کیس سے متعلق نہیں ہے کیونکہ جج کے ساتھ بدسلوکی کو اچھا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری افتخار احمد اور ایس ایس پی ریٹائرڈ کیپٹن ظفر اقبال کو 15 دن جیل میں قید کرنے کی سزا سنا چکی ہے اور ڈی ایس پی جمیل ہاشمی، پولیس انسپکٹر رخسار مہدی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد سراج کو ایک، ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

’پری زاد‘ ڈرامے میں دکھایا گیا گھر 60 کروڑ روپے میں فروخت کے لیے پیش

جماعت الدعوۃ کے سربراہ کے گھر کے باہر بم دھماکا کرنے والے 4 مجرمان کو سزائے موت

رمیز راجا کی پاکستان، بھارت سمیت 4ملکی ٹی20 سیریز کی تجویز