کاروبار

پاکستان میں حیران کن بہتری سے عالمی بینک متاثر

پاکستان کی شرح نمو رواں مالی سال کے دوران 3.4 فیصد اور 23-2022 میں 4 فیصد رہے گی، رپورٹ

عالمی بینک کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی طلب میں بہتری، ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے، جزوی لاک ڈاؤن اور موافق مالیاتی پالیسی کے باعث پاکستان میں گزشتہ سال شرح نمو حیران کن رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کی ‘عالمی اقتصادی تناظر رپورٹ 2022‘ میں عندیہ دیا گیا ہے کہ وبا کے باعث ہونے والی مشکلات میں کمی کی وجہ سے 2022 میں جنوبی ایشیائی خطے میں شرح نمو 7.6 فیصد سے بھی بڑھ جائے گی، جو کہ 2023 میں سست ہوکر 6 فیصد تک آجائے گی۔

عالمی بینک نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بہتر امکانات کے باعث خطے کے لیے اپنی 2021 کی شرح نمو کے تخمینے کا ازسرنو جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اصلاحات، درآمدات میں مقابلے کی صلاحیت بڑھانے اور توانائی کے شعبے میں مالی استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی شرح نمو رواں مالی سال کے دوران 3.4 فیصد اور 23-2022 میں 4 فیصد رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک کا پاکستان میں کاروباری اصلاحات میں بہتری کا اعتراف

رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ رواں مالی سال بھارت کی معیشت کی شرح نمو 8.3 فیصد اور 23-2022 میں 8.7 فیصد رہے گی، رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو وہی ہے جس کا تخمینہ بینک نے اکتوبر 2021 میں لگایا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران بھارت کی شرح نمو اپنے دیگر پڑوسی ممالک سے زیادہ رہے گی۔

عالمی بینک نے 22-2021 میں بنگلہ دیش کی شرح نمو 6.4 فیصد اور 23-2022 میں 6.9 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے، جبکہ رواں مالی سال میں نیپال کی شرح نمو 9.3 فیصد اور آئندہ سال میں 7.4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 کی عالمی معاشی شرح نمو 5.5 فیصد سے کم ہو کر 1.4 فیصد تک ہوجائے گی۔

روپوٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اومیکرون سے متعلق معاشی رکاوٹوں کے باعث شرح نمو میں 4.3 فیصد تک نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2020 میں پاکستان میں اصل شرح سود تیزی سے گری اور 2021 کے دوران منفی رہی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان نے مقامی طلب میں اضافے اور بڑھتی ہوئی توانائی کی قیمتوں کے باعث سامان کی تجارت کا بڑا خسارہ ریکارڈ کیا۔

مزید پڑھیں: ورلڈ بینک کے 'ڈوئنگ بزنس رپورٹ' روکنے کے فیصلے پر پاکستان کی پریشانی

جنوبی ایشیائی خطے میں مہنگائی بڑھنے کی توقعات کے باعث شرح سود مزید کم ہونے سے مالیاتی پالیسی مزید موافق رہی، لیکن پھر بھی پالیسی ریٹس کم ہیں۔

تیزی سے پالیسی ریٹ میں اضافے کے بعد یہ رجحان صرف پاکستان میں واپس پلٹا ہے تاہم پاکستان میں مالی سال 2021 میں مالی دباؤ کے باعث حقیقی اخراجات میں کمی آئی۔

رپورٹ میں اگست میں طالبان کے افغانستان کے قبضے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور نوٹ کیا گیا کہ طالبان کے قبضے نے عالمی مدد کے تحت حاصل ہونے والی گرانٹ کو معطل کیا، بیرون ملک موجود اثاثوں اور عالمی مالی نظام تک رسائی کو معطل کیا جس سے انسانی اور معاشی بحران پیدا ہوا۔

بحران نے افغانستان میں کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کی درآمد کو بھی معطل کیا جس سے زرمبادلہ میں کمی ہوئی اور مالی شعبہ غیر فعال رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی گھریلو اشیا اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور نجی شعبہ منہدم ہوچکا ہے، جبکہ بینکنگ سسٹم غیر فعال ہونے کے بعد عالمی سطح پر فنڈز کی ترسیل کی عدم دستیابی کے باعث امدادی اقدامات روک دیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک کی توانائی کے شعبے، انسانی وسائل کو بہتر بنانے کیلئے 80 کروڑ ڈالر کی منظوری

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کورونا وبا کے دوران کمزور ہوجانے والے تعلقات دوبارہ مضبوط ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں بلند شرح مہنگائی نے مالیاتی موافقت کو ختم کردیا ہے، رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ 2022 میں خطے کی مالیاتی پالیسی سخت ہونے کے ساتھ درمیانے درجے تک موافق رہے گی، سوائے پاکستان کے جہاں بلند شرح مہنگائی نے مالیاتی موافقت کو ختم کردیا ہے۔

اگرچہ جنوبی ایشیا کے خطے میں فی کس آمدنی میں پیشرفت کے ذریعے اقتصادی ترقی جاری رہ سکتی ہے، تاہم اس کی رفتار کورونا وبا سے پہلے کی دہائی کے مقابلے میں پیش گوئی کی مدت میں سست ہوگی۔

پاکستان اور سری لنکا کے مالیاتی چیلنجز بھی خطے کی شرح نمو پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔

بھوٹان، نیپال، پاکستان اور سری لنکا میں 23-2021 میں فی کس آمدنی ترقی یافتہ معیشتوں سے مزید پیچھے رہ سکتی ہے۔

بھارت کو نکال کر اس خطے میں 2023 کے دوران آؤٹ پُٹ 4 فیصد تک رہ سکتا ہے جو کہ وبا سے پہلے کی گئی پیش گوئیوں سے کم ہے۔

تحقیقات شروع ہونے پر حریم شاہ کا پیسوں کی منتقلی پر یو-ٹرن

ملک میں کورونا کے مزید 3 ہزار 19 کیسز، مثبت شرح 6.12 فیصد ہوگئی

انگلینڈ سے کچھ کھلاڑی ’چُرا‘ کر حساب برابر کرنے کا وقت آگیا؟