نقطہ نظر

پاکستان چین سے ’اسرائیلی‘ جنگی طیارہ خرید رہا ہے یا ’امریکی‘؟

درحقیقت ہمارا کام ہوگیا۔ شریکوں کو آگ لگی ہوئی ہے، اور ہم نے امریکی، چینی، اسرائیلی 3 گیندیں اکٹھی اچھالنے کا اچھا مظاہرہ کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے ایک بیان دیا کہ ’23 مارچ کی پریڈ میں جے 10 طیارے شریک ہوں گے اور ان طیاروں کو پاکستانی پائلٹ ہی اڑائیں گے۔ بھارتی فضائیہ کے پاس موجود فرینچ رافیل کے مقابلے میں پاکستان نے جے 10 سی کا انتخاب کیا ہے’۔

جے 10 کے نام میں شاید ایف کا اضافہ بھی کیا جائے۔ جے 10 کی رفتار 2400 کلومیٹر 2۔2 ماک ہے۔ جبکہ رافیل کی 1912 کلومیٹر ہے۔ مزید تفصیل آپ انڈیپینڈنٹ اردو کی سائٹ پر پڑھ لیں۔

جے 10 کی خریداری کا ذکر آتے ہی عالمی میڈیا میں اس ڈیل کا تذکرہ شروع ہوگیا۔ اسرائیل نے اپنا جنگی طیارہ لاوی (Lavi) بنانے کا پروگرام 1987ء میں ترک کردیا تھا۔ اسرائیلی کابینہ نے 12 کے مقابلے میں 13 ووٹ سے یہ پروگروم ختم کیا تھا۔

تب رونلڈ ریگن انتظامیہ نے اسرائیل پر شدید دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنا لاوی پراجیکٹ ترک کردے۔ اس دباؤ کے ساتھ یہ آفر بھی کی گئی تھی کہ ڈیفنس انڈسٹری کو ترقی دینے کے لیے امریکا اسرائیل سے تعاون کرے گا۔ اس آفر کو مزید قابلِ قبول بنانے کے لیے یہ بھی کہا گیا کہ آپ لاوی طیارے کو اڑاتے رہیں لیکن ایسا صرف ایوانک سسٹم کو بنانے کے لیے ہی کریں۔

لاوی پراجیکٹ کے ایک اہم اسرائیلی حمایتی موشے آران (Moshe Arens) نے 2017ء میں ہارٹز نیوز سائٹ میں ایک آرٹیکل لکھا۔ اس میں بتایا کہ لاوی پراجیکٹ ترک کرنے کے لیے پس منظر میں ایک بہت زوردار مہم چلی تھی۔ اسرائیلی ایئر فورس کے نمائندے نے جھوٹ بول کر کابینہ کو گمراہ کیا اور پراجیکٹ ڈراپ کردیا گیا۔

موشے آران کا یہ دعویٰ تب اسرائیلی ایئر فورس کے ویپن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کوبی رچر (Kobi Richter) نے مسترد کردیا تھا۔ ساتھ کہا کہ ہم نے پراجیکٹ ڈراپ کرکے سب کو معاشی تباہی سے بچایا تھا۔

1988ء میں اسرائیلی وزیرِ دفاع یتزاک رابن (Yitzhak Rabin) نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ مسترد کردیا کہ اسرائیل نے چین کو میزائل ٹیکنالوجی دی ہے یا اس ایک جنگی طیارہ بنانے میں مدد دے رہا ہے۔

بھارتی ویب سائٹ دی پرنٹ نے جے 10 کا رافیل سے موازنہ کیا اور پھر اپنے جہاز کو فاتح بھی قرار دے دیا۔ جے 10 کے انجن کے مسائل کا ذکر کیا ہے کہ پہلے اس میں روسی انجن انسٹال تھا اور اب اس میں چین کا اپنا تیار کردہ انجن فٹ کیا گیا ہے۔ جے 10 کے اے ای ایس اے راڈار کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا ماسٹر مغرب ہے اور چینی ابھی لگے ہوئے۔

بھارتی ریٹائرڈ ایئر مارشل انیل چوپڑا نے دی پرنٹ کو ہدایت کی کہ دونوں جہازوں کا موازنہ نہ کرو کیونکہ ان کی یعنی بھارت کی کلاس مختلف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا وزن اور ان کی ویپن لسٹ میں بھی فرق ہے۔

دی پرنٹ نے بی وی آر میزائل جو رافیل اور جے 10 پر نصب ہیں، ان کا بھی موازنہ کیا ہے۔ خود کو تسلی دی ہے کہ رافیل کے میزائل کی رینج ٹیسٹڈ ہے جبکہ جے 10 پر نصب پی ایل 15 میزائل کی 140 سے 150 کلومیٹر کی رینج بس چینی دعویٰ ہی ہے۔ دی پرنٹ نے اپنی رپورٹ میں ساڑ نکالتے ہوئے البتہ یہ تصدیق ضرور کردی کہ جے 10 کا ڈیزائن اسرائیل کے لاوی پروگرام سے متاثر ہے۔

آپ نے دی پرنٹ کی رپورٹ سے گھبرانا نہیں ہے، بس چین میں ہونے والے ایئر شو کی فوٹو دیکھیں اندازہ ہوگا کہ کیسے انڈین جہاز جے 10 دیکھنے کے لیے مچلتے رہے۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع کا بیان یاد کریں کہ ہم چین کو نہ میزائل دے رہے نہ جہاز بنانے میں مدد دے رہے۔ ہم نے ’مینوں نوٹ وخا میرا موڈ بنے‘ قسم کے گیت سن رکھے ہیں، پھر بھی مان جاتے ہیں کہ اسرائیلی وزیرِ دفاع ٹھیک کہہ رہے تھے۔

جے 10 کی صلاحیتوں کی اصل تعریف ملٹری واچ میگزین نے کی ہے۔ اس میں امریکی کانگریس کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سنگل انجن یہ طیارہ کارکردگی میں اپنی کلاس کے طیاروں سے تو آگے ہی ہے۔ امریکی ایف 16 سی اور جاپانی ایف 2 پر تو فیصلہ کن برتری رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹوئن انجن ایف 15 سی کو بھی چیلنج کرتا ہے۔

کانگریس رپورٹ بتاتی ہے کہ جے 10 اپنے لائٹ ویٹ اور سنگل انجن کے ساتھ بہت مہنگے جنگی طیاروں کو چیلنج کرتا ہے۔ اس کی کارکردگی ایلیٹ کلاس کے فائٹر جیٹ ایف 15 کو بہت قریبی چیلنج دیتی دکھائی دیتی ہے۔

ٹی آر ٹی ترک نیوز ویب سائٹ کے مطابق بھارت نے جب رافیل طیارے خریدے تو پاکستان کو بھی جواب تو دینا ہی تھا۔ پاکستان کے پاس موجود ایف 16 پرانے ہو رہے ہیں۔ جے ایف 17 کا نیا بلاک ابھی پروڈکشن میں چل رہا ہے۔ ایسے میں اپنے حریف کو بتانا ضروری تھا کہ ہم بھی تیار ہیں۔

یہ ہوگئی اسرائیلی جیٹ لاوی اور ہمارے جے 10 کی کہانی۔ انتخاب ہمارا اچھا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کا پروگرام بند کروایا کیونکہ تب اسرائیلی 300 لاوی ایئر فورس کو دینے کے چکر میں تھے۔ اب امریکی جہاز خریدتے ہیں۔ لاوی بھی امریکی ٹیکنالوجی اور پرزوں کے استعمال سے بنایا جارہا تھا۔ ایف 16 سے اس کی مشابہت بہت واضح ہے۔ اس کے ایوانکس کی خود امریکی بھی تعریف کرتے تھے۔

بھارت نے جب ہم پر ایک قسم کی فضائی برتری لینے کی کوشش کی تب پاکستان نے جو جہاز خریدا وہ گھوم پھر کر امریکی ہی ہے۔ اسرائیلی بس یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا بھی تو ہے۔ وہ کہتے رہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارا کام ہوگیا۔ شریکوں کو آگ لگی ہوئی ہے، اور ہم نے امریکی، چینی، اسرائیلی 3 گیندیں اکٹھی اچھالنے کا اچھا مظاہرہ کیا ہے۔

وسی بابا

دیس دیس کی اپنے دیس سے جڑی باتیں دیسی دل سے کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: WisiBaba. انہیں ٹوئیٹر پر فالو کریں WisiBaba.

آپ کا ای میل ایڈریس wisinewsviews@gmail.com ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔