پہلی بار خنزیر کے دل کی انسانی جسم میں پیوند کاری
طب کے شعبے میں پہلی بار ڈاکٹروں نے ایک خنزیر کے دل کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ ایک مریض کی زندگی کی بچانے کی آخری کوشش کے طور پر کی ہے۔
امریکا کے میری لینڈ ہاسپٹل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس تجرباتی سرجری کے 3 دن بعد مریض کی حالت بہتر ہے۔
ابھی یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ آپریشن مکمل طور پر کامیاب رہا مگر اس سے دہائیوں سے جانوروں کے اعضا کی انسانوں میں پیوندکاری کی کوششوں میں ایک بڑی پیشرفت ضرور ہوئی ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ جینیاتی طور پر تدوین شدہ جانور کا دل کام کرسکتا ہے اور انسانی جسم اسے فوری طور پر مسترد نہیں کرتا۔
57 سالہ مریض ڈیوڈ بینیٹ میری لینڈ کے رہائشی ہیں اور ان کے بیٹے نے بتایا کہ میرے والد کو علم تھا کہ ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ تجربہ کام کرے گا مگر چونکہ وہ موت کے منہ میں جارہے تھے، انسانی دل کی پیوندکاری کے اہل نہیں تھے تو ان کے پاس کوئی اور انتخاب نہیں تھا۔
میری لینڈ یونیورسٹی کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق سرجری سے ایک دن قبل مریض نے کہا تھا 'یا تو میں مرجاؤ یا یہ پیوندکار کرالوں، میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ یہ اندھیرے میں فائر کرنے جیسا ہے مگر اس کے علاوہ میرے پاس کوئی انتخاب نہیں'۔
یہ آپریشن 7 جنوری 2022 کو ہوا تھا اور 10 جنوری کو ڈیوڈ بینیٹ نے اپنے طور پر سانس اس وقت لی جب وہ بدستور نئے دل کو مدد فراہم کرنے والی مشین کے ساتھ منسلک تھے۔
اگلے چند ہفتے سرجری کے بعد مریض کی بحالی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ڈاکٹروں کی جانب سے ان کے دل کی مانیٹرنگ جاری رکھی جائے گی۔
میری لینڈ یونیورسٹی کے جانوروں سے انسانوں میں پیوندکاری پروگرام کے سائنٹیفک ڈائریکٹر پاکستانی نژاد ڈاکٹر محمد محی الدین نے بتایا 'اگر یہ کامیاب ہوا، تو ہمارے پاس پیوندکاری کے منتظر مریضوں کے لیے لامحدود سپلائی ہوگی'۔
ماضی میں اس طرح کی پیوندکاری کی کوششیں اس لیے ناکام رہی کیونکہ مریضوں کے جسم نے جانوروں کے اعضا کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
ان میں سب سے زیادہ مشہور 1984 کا کیس ہے جس میں بے بی فائی میں ببون کے دل کی پیوندکاری ہوئی اور جس کے 21 دن بعد اس کا انتقال ہوا۔
مگر اس بار ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ماہرین نے ایسے خنزیر کے دل کو استعمال کیا ہے جو جینز کی تدوین کے عمل سے گزرا تاکہ خلیات سے ایک شوگر کو نکالا جاسکے جو انسانی جسم کو اعضا کو مسترد کرنے کا باعث بنتی ہے۔
متعدد بائیو ٹیک کمپنیاں خنزیر کے اعضا کو انسانی پیوندکاری کے لیے تیار کررہی ہیں اور ان میں سے ایک کمپنی Revivicor کے تیار کردہ دل کو اس آپریشن کے لیے استعمال کیا گیا۔
امریکا میں طبی معاملات کے نگران ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے اس سرجری کی ہنگامی منظوری ہمدردی کے طور پر دی، جو ایسے مریضوں کے لیے دی جاتی ہے جن کو جان لیوا مرض کا سامنا ہوتا ہے مگر زندگی بچانے کے لیے آپشنز نہیں ہوتے۔
حالیہ برسوں میں سائنسدانوں نے بندروں سے توجہ ہٹا کر خنزیر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جینز میں تبدیلیاں لائے۔
ستمبر 2021 میں نیویارک کے محققین نے خنزیر کے گردے کو ایک مردہ انسانی جسم میں عارضی طور پر ٹرانسپلانٹ کیا اور اسے کام کرتے ہوئے دیکھا۔
اس تجربے میں شامل ٹیم کی سربراہ کرنے والے نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کے ڈاکٹر رابرٹ مونٹیگمری نے کہا کہ میری لینڈ میں ہونے والی سرجری نے اس تجربے کو اگلے مرحلے میں پہنچا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ حقیقی معنوں میں زبردست پیشرفت ہے، میں خود دل کے ایک جینیاتی عارضے سے متاثر ہونے پر دل کے ٹرانسپلانٹ کا منتظر ہوں، میں اس خبر سے پرجوش ہوں کیونکہ اس سے میرے خاندان اور دیگر مریضوں میں نئی امید پیدا ہوئی جن کو اس پیشرفت سے بچانے میں مدد مل سکے گی'۔
یہ آپریشن بالٹی موڑ ہاسپٹل میں ہوا تھا اور سرجری ڈاکٹر بارٹلے گرفتھ نے کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ مریض کو ہارٹ فیلیئر اور دل کی بے ترتیب دھڑکن جیسے مسائل کا سامنا تھا اور اس وجہ سے وہ انسانی دل کی پیوندکاری یا ہارٹ پمپ کے لیے اہل نہیں تھا۔
ڈاکٹر بارٹلے نے 5 برسوں میں 50 ببون میں خنزیر کے دلوں کی پیوندکاری کی اور اب پہلے انسان میں اس طرح کی سرجری کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔
انہوں نے بتایا 'ہم ہر دن کے ساتھ ڈیوڈ سے بہت کچھ جان رہے ہیں، اب تک ہم آگے بڑھنے کے اپنے فیصلے پر خوش ہیں اور وہ بھی مطمئن ہیں، آج ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی'۔
خنزیر کے دل کے والو کو انسانوں میں دہائیوں سے استعمال کیا جارہا ہے اور ڈیوڈ بینیٹ کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے بھی ایک دہائی قبل ایسا کیا تھا۔