پاکستان

سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کے خاتمے کیلئے درخواست دائر کرنے کی تیاری

آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے خاتمے کے لیے درخواست سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی جائے گئی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے آئین کی شق 62 (ون ایف) کے تحت تاحیات نااہلی کے خاتمے کیلئے درخواست تیار کرلی جو جلد ہی دائر کی جائے گی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کی جائے گی اور درخواست میں وفاق کو فریق بنایا جائے ۔

مزید پڑھیں: نواز شریف اور جہانگیر ترین تاحیات نااہل قرار

درخواست میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس اور سپریم کورٹ کے خصوصی اختیارات سے متعلق مقدمات میں اپیل کا حق دیا جائے، کسی امیدوار کو تاحیات نااہل قرار دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ بار کی جانب سے تیار کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات میں قرار دے چکی ہے کہ منتخب نمائندگان کو عوام سے دور نہیں رکھا جاسکتا، غلطی کرنے والوں کو نظرثانی اور معافی کا حق نہ دینا اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

درخواست میں تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے آرٹیکل 184اور آرٹیکل 99 کی تشریح کی استدعا کی بھی کی جائے گئی۔

یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔

جس کے بعد دسمبر 2017 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو فارنگ فنڈنگ کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے ذریعے ہمیشہ کی نا اہلی پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی

بعد ازاں اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، جس کے بعد اس مدت کا تعین کرنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکانِ پارلیمنٹ تاحیات نااہل ہوں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں کہا گیاتھا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف اسلامی اقدار کے مطابق ہے اور اس کی یہی ممکنہ تشریح بنتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی اپنی حثیت ہے، جس کا مقصد پارلیمان میں دیانتدار، راست گو اور شفاف اراکین منتخب ہوں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 میں مدت کا تعین ہوا اور آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہوا، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اورجب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا، نااہلیت بھی رہے گی۔

مزید پڑھیں: تاحیات نااہلی: کیا اب بھی راستہ موجود، تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17 اے سے 62 ون ایف متاثرنہیں ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 ون ایف کا 63 ون ایچ سے موازنہ نہیں ہوسکتا اور کسی شخص کے خلاف عدالتی حکم ہوکہ وہ صادق اورامین نہیں تو وہ رکن پارلیمان نہیں بن سکتا۔

یاد رہے کہ آئین کی مذکورہ شق کے تحت تاحیات نااہلی کے مدت کے تعین کے حوالے سے پانچوں ججوں کا متفقہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا جبکہ 60 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس عظمت سعید کے 8 صفحات کا اضافی نوٹ بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس اضافی نوٹ میں جسٹس عظمت سعید نے لکھا تھا کہ انہیں فیصلے سے اتفاق لیکن اس کی وجوہات سے مکمل اتفاق نہیں ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کی بنیاد ہماری اسلامی اقدار ہیں اورایسی شقوں کی تشریح انتہائی محتاط انداز میں کرنی چاہیے۔

بائنانس نےکرپٹو اسکینڈل کی تحقیقات میں ایف آئی اے سے تعاون کیلئے ماہرین کی ٹیم تشکیل دے دی

ہم محفوظ ہیں تو پاک فوج کی وجہ سے ہیں، فضا علی

گرفتاری کا خدشہ: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عبوری ضمانت کرالی