پاکستان

غیر ملکی آمدنی کے اسٹیٹمنٹس پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل

سپریم کورٹ میں ان لینڈ ریونیو کے کمشنر اور سیکریٹری خزانہ نے سینئر وکیل حافظ احسن احمد کھوکھر کے توسط سے درخواست دائر کی۔

سپریم کورٹ نے 22دسمبر 2020 کو سندھ ہائی کورٹ کا غیر ملکی آمدنی، اثاثوں اور واجبات کے گوشوارے سے متعلق حکم امتناع معطل کر دیا جو پاکستان میں رہائش پذیر ٹیکس دہندگان کو دائر کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، کمشنر ان لینڈ ریونیو، اے ای او آئی زون، لارج ٹیکس پیئرز آفس کراچی، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دائر کی گئی مشترکہ درخواست کی سماعت کے دوران معطلی کا حکم جاری کیا۔

ان لینڈ ریونیو کے کمشنر اور سیکریٹری خزانہ نے سینئر وکیل حافظ احسن احمد کھوکھر کے توسط سے درخواست دائر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ, بھرتیوں کے عمل کی نگرانی میں سندھ ہائیکورٹ کی 'ناکامی' پر برہم

فنانس ایکٹ 2018 کے ذریعے حکومت نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ایک ترمیم کی جس کے تحت ہر رہائشی ٹیکس دہندہ کو غیر ملکی اثاثے رکھنے، غیر ملکی اخراجات کرنے، غیر ملکی آمدنی حاصل کرنے اور غیر ملکی واجبات کا حامل کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ملکی آمدنی اور اثاثہ جات کی اسٹیٹمنٹ کو الگ سے فائل کرے۔

نادہندگی کی صورت میں سیکشن 182(1) سیریل 1AAA میں مزید ترمیم بھی کی گئی، جس کے تحت ہر سال نادہندگی کے ہر سال کے لیے غیر ملکی آمدنی یا غیر ملکی اثاثوں کی قیمت پر دو فیصد کی شرح سے جرمانہ عائد کیا گیا۔

اس طرح صرف اے ای او آئی زون کراچی کے دائرہ اختیار میں تقریباً 650 ٹیکس دہندگان کو ٹیکس سال 2019 کے ریٹرن کے ساتھ اس طرح کے گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت تھی، جن میں سے 433 ٹیکس دہندگان نے ترمیم شدہ قانون کے تحت مطلوبہ وقت پر اپنے گوشوارے جمع کرائے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: حکومت سندھ کا کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کا نوٹیفکیشن معطل

نتیجتاً ایف بی آر کی جانب سے نادہندہ 217 ٹیکس دہندگان کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔

ان میں سے 182 ٹیکس دہندگان نے نوٹسز کی تعمیل کی اپنے جوابات داخل کیے اور آئی ٹی او کی دفعات کے تحت فراہم کردہ مقررہ طریقہ کو اپنایا، جبکہ صرف 35 افراد نے ایف بی آر کے نوٹسز کو چیلنج کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے 22 دسمبر 2020 کو 35 کیسز میں شوکاز نوٹسز پر زیر التوا کارروائی کو منسوخ کر دیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ ان نوٹسز پر عدالتی کارروائی آٹی او کے تحت اتھارٹی کے سامنے زیر التوا تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ٹیکس دہندگان کے پاس ان لینڈ ریونیو (اپیل) کمشنر کے سامنے اور پھر ان لینڈ ریونیو اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل دائر کرنے یا آئی ٹی او میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق معاملے کو حل کرنے کے لیے ہائی کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے قانونی راستہ دستیاب تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: گریڈ 8 سے 17 کے ملازمین کی مشروط بحالی کی تجویز

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ہائی کورٹ اس معاملے کا فیصلہ سناتے ہوئے اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہی کہ پارلیمنٹ نے فنانس ایکٹ 2018 کے ذریعے ترمیم کی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ رہائشی پاکستانی ٹیکس سال 2019 سے اپنی غیر ملکی آمدنی اور اثاثہ جات کے گوشوارے الگ سے جمع کرائیں۔

اپیل میں کہا گیا کہ معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہی کہ غیر ملکی آمدنی اور اثاثوں کے بیان کا مقصد پاکستان میں مالیاتی شفافیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ لہٰذا ہائی کورٹ نے غیر ملکی آمدنی کے اسٹیٹمنٹ کو غلط سمجھا، آئی ٹی او کے تحت دستیاب متبادل طریقہ کار کے تناظر میں ہائی کورٹ کے سامنے دائر درخواستیں ٹیکس دہندگان کو محض اظہار وجوہ نوٹس جاری کرنے کے قابل نہیں تھیں اور اس وجہ سے ان کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔

اپوزیشن کا سول ملٹری تعلقات میں اختلاف کا بیانیہ 'مردہ اور دفن' ہوچکا، وزیراعظم

جوکووچ کی آن لائن عدالتی سماعت ہیک، فحش تصاویر، موسیقی نشر کی گئی

مری میں انتظامیہ تیار نہیں تھی تو وزیراعظم استعفیٰ دیں اور گھر جائیں، شہباز شریف