اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سرکاری عہدوں پر تقرریوں کے قوانین میں خلاف ورزی کا مرتکب
بیوروکریسی کے معاملات کو سنبھالنے اور ملکی امور کو باآسانی آگے بڑھانے کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن خود سرکاری ملازمین کے تبادلے اور تعیناتی میں قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بیوروکریسی کے مرکزی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے اور اس کے افسران وفاقی حکومت کے انتظامی مشیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
ان کی ذمہ داریوں میں مختلف ڈویژنوں اور ان سے منسلک محکموں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام وفاقی سرکاری دفاتر، شعبے اور خود مختار تنظیموں وغیرہ میں تعیناتیاں، تبادلے، ترقی اور ٹریننگ سے نمٹنے کے علاوہ، مخصوص انتظامی مسائل کے حل کے لیے کیس اسٹڈیز کرنے، تنظیمی جائزے لینا شامل ہے۔
تاہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے رکھے گئے آڈٹ پیراز کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے کئی افسران نے اپنی عہدوں پرمخصوص مدت سے زیادہ وقت گزارا ہے جبکہ توسیع کی صورت میں زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک تعیناتی جاری رکھنے کی اجازت ہے۔
ان افسران میں صوبائی محکمہ تعلیم کے افسران، سابق کیڈر اور نان کیڈر افسران اور بلوچستان کا ایک ویٹرنری ڈاکٹربھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کے 12 سے زائد سینئر افسران کے تبادلے اور ترقی
اس کے علاوہ، سرکاری آڈٹ کے مطابق کم از کم 14 افسران نے متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ڈیپوٹیشن الاؤنس کی 5.4 ملین روپے مالیت کی غیرقانونی ادائیگیاں حاصل کی ہیں-
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر نے ان تقرریوں کو "غیر قانونی" قرار دیا ہے کیونکہ آڈیٹرز کو متعلقہ اتھارٹی کی منظوری کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان 14 افسران میں سے کسی کی ذاتی فائلیں پیش کی گئی تھیں۔
لہذا آڈیٹرز نے فیصلہ دیا ہے کہ ان افسران کی تنخواہیں ادا نہیں کی جانی چاہیے تھیں اور سفارش کی ہے کہ ان افسران کی تنخواہ اور الاؤنسز پر خرچ کی گئی رقم واپس وصولی کی جائے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اپنے قوانین کے مطابق، "تمام عہدوں پر سرکاری ملازمین کی تعیناتی کے لیے مدت عموماً تین سال ہوگی۔ متعلقہ اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے ساتھ اس مدت میں دو سال تک توسیع کی جاسکتی ہے۔
قانون یہ کہتا ہے کہ پانچ سال گزر جانے کے بعد جس ادارے نے یہ سرکاری ملازم تعینات کیا ہو اور جس ادارے نے اس سرکاری ملازم کی خدمات حاصل کی ہوں ان دونوں کو فوراً وہ تعیناتی واپس لینے کا عمل یقینی بنانا ہوگا۔
مزید پڑھیں: داخلی چیلنجز کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بڑی تبدیلی
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سرکاری ادارے میں تعینات ہے اور اس نے پانچ سال کی مدت پوری کر لی ہے، تو اسے فوراً اس کے متعلقہ ادارے میں واپس بھیجا جانا چاہیے۔
بصورت دیگر متعلقہ آڈٹ دفاتر کی جانب سے اسے پانچ سال کی مدت مکمل ہونے کے بعد تنخواہ اور الاؤنسز کی ادائیگی نہیں ی جائے گی۔
اکثر حکومتی وزارتوں اور محکموں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ان قوانین پر عملدرآمد کیا، لیکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے ہی عملے پر اسی پالیسی کو نافذ نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے ستمبر 2016 میں ان افسران کے متعلقہ اداروں اور جن اداروں میں انہیں تعینات کیا گیا تھا دونوں کی رضامندی سے افسران کو تعیناتیوں پر برقرار رکھنے اور متعلقہ اداروں میں واپس منتقلی کا طریقہ کار طے کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 27 اکتوبر 2017 کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مطلع کیا کہ جو افسران سرکاری عہدوں پر تعینات ہیں انہیں ان کے متعلقہ محکموں میں واپس بھیجا جائے گا اور وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ تعیناتیوں اور تقرریوں کے حوالے سے پالیسی پر عدالت کے طے شدہ فیصلے کے مطابق نظرثانی کرے۔
عدالت نے مقررہ معیار پر پورا اترنے والے تمام امیدواروں کو آفس مینجمنٹ گروپ کی 10 فیصد مخصوص اسامیوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی تھی۔
رجسٹرار کے خط کے مطابق امیدواروں کے انتخاب کا عمل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا تھا، اپنے متعلقہ محکموں میں واپس بھیجے گئے افسران ان عہدوں پر تعیناتی کے لیے ایف پی ایس سی امتحان کے ذریعے درخواست دے سکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے سے انکار
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ترجمان رفیق سالک کے مطابق ڈویژن نے سپریم کورٹ کی تقریباً پانچ سال پرانی ہدایات پر عمل کرنے کا عمل حال ہی میں شروع کیا تھا۔
رفیق سالک کے مطابق ایف پی ایس سی نے ان اہل افسران کے لیے امتحانات منعقد کیے ہیں جو ڈویژن میں ریگولرائزیشن کے خواہاں ہیں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔
لیکن یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ان افسران پر سپریم کورٹ کے احکامات کے اطلاق میں اتنا وقت کیوں لگا؟
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ یہ تاثر موجود تھا کہ چونکہ یہ افسران کئی سالوں سے کلیدی عہدوں پر اہم خدمات سرانجام دے رہے تھے اس لیے ان کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے بڑے پیمانے پر تبادلوں سے ایک خلا پیدا ہوسکتا تھا جس کے نتیجے میں ڈویژن کی کارکردگی پر برا اثر پڑ سکتا تھا۔
ایک سینئر بیوروکریٹ نے ڈان کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ان تقرریوں کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ انہیں اپنے ادارے کیلئے یادگار سمجھتا ہے۔
تاہم ان کے مطابق جب ڈویژن نے افسران کی مخصوص مدت سے زیادہ تعیناتی برقرار رکھنے کیلئے یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے اس موقف کو مسترد کردیا تھا۔