جماعت اسلامی کے دھرنے میں پیپلز پارٹی وفد کی آمد، بلدیاتی قانون میں ترمیم کی یقین دہانی
متنازع بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر 10 روز سے جاری جماعت اسلامی کے دھرنے میں پیپلزپارٹی کا وفد مذاکرات کے لیے پہنچا، جہاں وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی کی قیادت کو بلدیاتی قانون میں ترمیم کی یقین دہانی کراتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی۔
تاہم جماعت اسلامی نے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار بڑھانے اور شہر بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2021 کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا گزشتہ 10 دن سے جاری ہے۔
اتوار کی شب صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے جماعت اسلامی سے مشاورت کرکے بلدیاتی بل میں ترمیم کی یقین دہانی کرائی۔
مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات میں تاخیر: الیکشن کمیشن نے سندھ کے اعلیٰ حکام کو طلب کر لیا
ان کا کہنا تھا کہ منظور کردہ بلدیاتی قانون آسمانی صحیفہ نہیں جس میں ردوبدل نہ کی جا سکے لہٰذا جماعت اسلامی سے مشاورت کر کے قانون میں مزید ترامیم کے لیے آمادہ ہیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ہم مصروفیات کی وجہ سے پہلے نہیں آسکے لیکن بلدیاتی قانون کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی ہے جو یومیہ بنیادوں پر باہمی مشاورت سے کام کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر مذاکرات کے لیے آئے ہیں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے دھرنا کچھ دنوں کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست کی۔
متنازع بلدیاتی قانون پر مشاورت کے لیے تشکیل کمیٹی میں سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی وزیر سعید غنی، ناصر حسین شاہ، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، تاج حیدر شامل ہیں جبکہ کمیٹی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی نائب امیر مسلم پرویز، رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید، پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ و دیگر کریں گے۔
مزید پڑھیں: نئے بلدیاتی قانون کےخلاف جماعت اسلامی کی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست
بعدازاں حافظ نعیم الرحمٰن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں تمام اکائی سے وابستہ افراد رہتے ہیں ، جماعت اسلامی نظریاتی تحریک ہے، سب کو اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے، جماعت اسلامی کا دھرنا منی پاکستان بن گیا ہے،ہم پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی پوری ٹیم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے کے شرکا سے پوچھا کہ کیا پیپلزپارٹی کی یقین دہانی کے بعددھرنا ختم کر دیا جائے؟ جس پر شرکاء نے تمام مطالبات کی منظوری تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر کا سندھ کے بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ
قبل ازیں دھرنے میں ورلڈ گجراتی فیڈریشن کے ایک وفد نے چیئرمین ڈاکٹر سلیم کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی اور جماعت اسلامی کی قیادت کو اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔
اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے وفود، متعدد تجارتی تنظیموں، شہریوں، سابق اراکین اسمبلی اور دیگر کے علاوہ جماعت اسلامی کے کارکنان، خواتین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے دھرنے میں بڑی تعداد میں شرکت کا سلسلہ جاری رکھا۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے دھرنے کے 10ویں روز شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی غلطی تسلیم کرے اور کراچی اور صوبے کے دیگر حصوں میں عوام کی امنگوں کے مطابق اس کالے قانون کو منسوخ کرے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کراچی تا اسلام آباد مارچ کے لیے نکلنے سے پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار
لیاقت بلوچ نے کہا کہ یہ قانون واقعی ایک کالا قانون ہے اور بلاول کو آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے جس میں واضح طور پر اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے اس کالے قانون کو نئے اور بہتر قانون سے تبدیل کریں۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے اندرونی سطح پر مشاورت کے بعد احتجاج کو کراچی بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دھرنے کے نتیجے میں صوبے بھر کے عوام میں بیداری کی لہر دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ دیہی علاقوں کے لوگوں نے بھی اپنا جائز حق مانگنا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالے قانون نے ناصرف نسلی تقسیم کو گہرا کیا ہے بلکہ صوبے کو بھی دیہی اور شہری طبقات میں تقسیم کر دیا ہے۔