پاکستان

مری میں بڑی سڑکیں کلیئر کردی گئیں، بحالی کا کام جاری

راولپنڈی پولیس، ضلعی انتظامیہ اور پاک فوج کے جوانوں نے رات بھر کام کیا اور 600 سے 700 کاروں کو علاقے سے نکالا، شہباز گل

مری میں شدید برفباری کے باعث مرکزی سڑکوں پر پڑی برف ہٹانے اور راستوں کو کلیئر کرنے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ ملحقہ راستوں سے برف ہٹانے اور آمدورفت کی بحالی کا کام جاری ہے۔

ایک روز قبل کلنڈنہ اور جھیکا گلی کے قریب شدید برف کے باعث سڑک پر گاڑیوں میں محصور ہو کر سردی اور دم گھٹنے سے 22 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق تمام راستے ہر طرح کی نقل و حرکت کے لیے کھولے جاچکے ہیں کھلنا اور باریاں کے راستے بھی کلیئر کردیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی راستے کلیئر کرنے کے بعد فوجی انجینئرز لنک روڈز پر توجہ دے رہے ہیں، ریلیف کیمپس اور طبی سہولیات بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کررہے ہیں جبکہ پھنسے ہوئے لوگوں کو فوجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر شہباز گل نے بتایا کہ مری جانے والی تمام بڑی شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مری آفت زدہ قرار، ایمرجنسی نافذ، پاک فوج کے جوان مدد کیلئے پہنچ گئے

انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ رات تقریباً 600 سے 700 کاروں کو علاقے سے نکالا گیا، جس کے لیے راولپنڈی پولیس، ضلعی انتظامیہ اور پاک فوج کے جوانوں نے رات بھر کام کیا‘۔

شہباز گل نے مزید کہا کہ ’اسلام آباد اور راولپنڈی سے مری جانے والی سڑکوں پر پولیس اہلکار موجود ہیں، سڑکیں آج کے لیے بند رہیں گی‘۔

دوسری جانب پنجاب پولیس نے بھی ایک ٹوئٹر پیغام میں عوام سے اپیل کی کہ راولپنڈی/اسلام آباد سے مری جانے والے تمام داخلی راستے آج بھی بند ہیں، شہری اس طرف کا رخ نہ کریں۔

'اتنی برفباری کی مثال نہیں ملتی'

نتھیا گلی کے قریب رہنے والے ایک انتظامی افسر بھی صورتحال پر حیران ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جتنی برف اس سال اس علاقے میں پڑی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

نتھیا گلی کے قریب رہنے والے انتظامی افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ برف باری یا شدید برفباری نہیں تھی بلکہ ایسی برفباری کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ ہر چند گھنٹے پر چار سے پانچ فٹ برف پڑ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی شدید برفباری نہیں دیکھی، شدید آندھی چل رہی ہے، درخت جڑ سے اکھڑ چکے ہیں اور برفانی تودے گر رہے ہیں، لوگ انتہائی خوفزدہ ہیں اور ہر کسی کی اپنی ایک دردبھری کہانی ہے۔

تحقیقات کی یقین دہانی

دوسری جانب حکام نے واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان حسن خاور نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح لوگوں کو بچانا ہے اور اس کے بعد ریلیف کا کام شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری بھی کی جائےگ ی اور اگر کسی قسم کی کوتاہی نظر آئی تو ذمے داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

300 سے زائد افراد کو طبی امداد دی گئی

ہفتہ کو رات گئے جاری ایک بیان میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا کہ 300 سے زائد افراد کو آرمی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کی ٹیم نے طبی امداد فراہم کی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جھیکا گلی، کشمیری بازار، لوئر ٹوپہ اور کلڈنہ میں ایک ہزار سے زیادہ پھنسے ہوئے لوگوں کو کھانا فراہم کیا گیا

مزید پڑھیں:مری: برفباری میں پھنسے ایک ہی خاندان کے 8 افراد سمیت 22 سیاح جاں بحق

ساتھ ہی بتایا گیا کہ پھنسے ہوئے لوگوں کو ملٹری کالج مری، سپلائی ڈپو، آرمی پبلک اسکول اور آرمی لاجسٹک اسکول کلڈنہ میں رہائش دی گئی اور کھانا، چائے مہیا کی گئی۔

ہوٹل مالکان نے صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی

مری جانے والے اکثر سیاحوں نے سوشل میڈیا پر ہوٹل مالکان کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ مری کے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس کے مالکان نے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کردیا جس سے مسئلہ مزید سنگین شکل اختیار کر گیا اور برفباری میں پھنسے لوگ کرائے کی ادائیگی کے بجائے اپنی گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور ہوئے ۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اگر مقامی لوگ اور ہوٹل والے تعاون کرتے تو حالات مختلف ہوتے لیکن مری کے مقامی لوگوں کی ساکھ اور طرز عمل اس حوالے سے بہت خراب ہے۔

جہاں ایک طرف لوگ مری کے مقامی افراد اور ہوٹل مالکان کے رویے پر برہم ہیں، وہیں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مقامی لوگوں نے برف میں پھنسے سیاحوں کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے اور انہیں اس مشکل وقت میں کھانا اور کمبل پیش کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا مری کا فضائی دورہ

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مری کے برفباری سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ اور متاثرہ علاقوں میں جاری ریلیف آپریشن کا مشاہدہ کیا۔

وزیر اعلی عثمان بزدار کو ریلیف کمشنر/ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے ریلیف آپریشن کے بارے بریفنگ دی۔

خیال رہے کہ مری میں شدید برفباری، درختوں کے گرنے اور بڑی تعداد میں سیاحوں کے گاڑیوں میں پہنچنے سے سڑکیں بلاک ہوگئی تھیں جس کے پیشِ نظر سے جمعے سے مری میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔

سڑکیں بلاک ہونے کے سبب جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سیاح اپنے گاڑیوں کے اندر برف میں پھنس کر رہ گئے تھے اور دم گھنٹنے، سردی کی وجہ سے 22 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

صورتحال بے قابو ہوتی دیکھ کر حکومت پنجاب نے مری کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔

بعدازاں پولیس، ریسکیو ورکرز اور پاک فوج کے جوانوں نے پھنسے ہوئے سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور سڑکیں کلیئر کیں۔

تاہم مری میں سیاحوں کے داخل ہونے پر تاحکم ثانی پابندی عائد ہے۔

سانحہ مری: گاڑیوں میں دم گھٹنے کے واقعات سے کس طرح بچا جائے؟

کراچی میں کورونا کیسز کی مثبت شرح 15 فیصد سے بڑھ گئی

ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت میں حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی گئی