کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانیوں کے ساتھ اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانی شہریوں کے ساتھ کیے گئے اربوں روپے کے فراڈ سے پردہ اٹھایا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ کے سربراہ عمران ریاض نے ایک بیان میں بتایا کہ پاکستان میں پونزی اسکیمز کی طرز پر بہت سے آن لائن سرمایہ کاری کے فراڈ جاری ہیں جن میں سرمایہ کاروں سے زیادہ کلائنٹس لانے پر ان کی سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ یہ اسکیمز نئے کلائنٹس کی قیمت پر پرانے کلائنٹس کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور بالآخر اربوں روپے کا ٹھیک ٹھاک سرمایہ بنانے کے بعد غائب ہوجاتی ہیں۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ پیر 20 دسمبر کو پورے پاکستان سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ سے رابطہ کرنا شروع کیا اور کم از کم 11 موبائل ایپلی کیشنز یعنی MCX ،HFC ،HTFOX ،FXCOPY ،OKIMINI BB001 ،AVG86C ،BX66 ،UG ،TASKTOK کے بارے میں انکشاف کیا کہ ان ایپلی کیشنز نے پاکستانی عوام کے ساتھ اربوں روپے کا فراڈ کر کے ایک عرصے سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بِٹ کوائن کیا ہے، اور کیا آپ کو یہ خریدنا چاہیے؟
بیان میں کہا گیا کہ ان ایپلیکیشنز کا طریقہ کار لوگوں کو بائنانس کرپٹو ایکسچینج (بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ) میں رجسٹریشن کے لیے آمادہ کرنا تھا جس کا مقصد ورچوئل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن، ایتھریم، ڈاج کوائن وغیرہ میں تجارت کرنا تھا۔
جس کے بعد اگلا مرحلہ بائنانس والیٹ سے اس مخصوص ایپلیکیشنز کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنا تھا۔
یہاں یہ مدِ نظر رہے کہ بائنانس سب سے بڑا غیر منظم ورچوئل کرنسی ایکسچینج ہے جہاں پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق اسی وقت گروپ کے تمام ممبران کو ٹیلیگرام ایپلی کیشن پر گروپس میں شامل کیا گیا جہاں ایپلی کیشن کے گمنام مالک اور ٹیلی گرام گروپس کے ایڈمنز کی جانب سے بٹ کوائن کے عروج اور زوال کے بارے میں نام نہاد ماہر بیٹنگ سگنلز دیے جاتے تھے۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ ایک مرتبہ جب کافی کیپٹل بیس قائم ہو گیا تو یہ ایپلیکیشنز کریش ہوگئیں اور اس طرح ریفرل بونس عمل کے ذریعے لوگوں کے لاکھوں ڈالر لوٹے گئے۔
مزید پڑھیں: بٹ کوائن کی قیمت میں ریکارڈ کمی
انکوائری کے ابتدائی نتائج کے مطابق اس طرح کی ہر ایپلیکیشن کے اوسطاً 5 ہزار صارفین تھے جبکہ HFC کے ساتھ مبینہ طور پر زیادہ سے زیادہ 30 ہزار صارفین تھے۔
ایف آئی اے کے مطابق سرمایہ کاری کی مبینہ حد فی کس 100 سے 80 ہزار ڈالر تک تھی جس کا تخمینہ اوسطاً 2 ہزار ڈالر فی کس ہے اس طرح یہ اندازاً 10 کروڑ ڈالر کا فراڈ ہے۔
مذکورہ انکشافات سامنے آنے پر ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ نے حمزہ خان، جنرل منیجر/گروتھ اینالسٹ بائنانس پاکستان (کرپٹو کرنسی ایکسچینج) کو بائنانس کے ساتھ دھوکا دہی پر مبنی آن لائن سرمایہ کاری موبائل ایپلی کیشنز کے تعلق سے متعلق اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا۔
ساتھ ہی اس کی وضاحت کے لیے ایک متعلقہ سوالنامہ بائنانس ہیڈ کوارٹر کیمن آئی لینڈز اور بائنانس امریکا کو بھی بھیجا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا بٹ کوائن پاکستان کے مسائل کا حل ہے؟
اس ضمن میں ایف آئی اے کی جانب سے اب تک مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جن کے تحت ان ایپلیکیشنز سے منسلک تمام پاکستانی بینک اکاؤنٹس کو ڈیبٹ بلاک کردیا گیا ہے اور فراڈ ایپلیکیشنز کے گروپس کے ایڈمنز کی معلومات کے حصول کے لیے ٹیلیگرام سے رابطہ کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ان ایپلیکیشنز کی تشہیر کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئینسرز کو ایپلیکیشنز کے ساتھ ان کے رابطے کی وضاحت کے لیے قانونی نوٹس بھیجے جا رہے ہیں۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ تحقیقات میں کم از کم 26 مشتبہ بلاک چین والیٹ ایڈریسز (بائنانس والیٹ ایڈریس) کی نشاندہی ہوئی ہے جہاں دھوکا دہی سے رقم منتقل کی گئی ہوگی، اس ضمن میں بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ کو خط لکھا گیا ہے تاکہ ان بلاک چین والیٹ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان کو ڈیبٹ بلاک کیا جائے۔
ساتھ ہی بائنانس سے کہا گیا ہے کہ وہ شرائط، سرکاری معاون دستاویزات اور بائنانس کے ساتھ ان ایپلیکشنز کے انضمام کا طریقہ کار فراہم کرے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ نے دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی لعنت کو روکنے کے لیے بائنانس پر پاکستانیوں کی جانب سے کی جانے والی لین دین پر کڑی نظر رکھنے کی جانب اقدامات شروع کردیے ہیں کیونکہ بائنانس ایسی سرگرمیوں کو سہولت فراہم کرنے والا سب سے بڑا اور آسان پلیٹ فارم ہے۔