لائف اسٹائل

’موہن جو دڑو‘ جیسے شہر بناتے تو یورپی لوگ یہاں آتے، یاسر حسین

’موئن جو دڑو‘ میں 2500 قبل مسیح بھی ہر گھر میں ’ڈسٹ بن ہوتا تھا‘ آج سندھ کی گندگی دیکھ کر دکھ ہوا، اداکار

اداکار، میزبان و ہدایت کار یاسر حسین نے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ جیسے شہر بنائے جاتے تو یورپ کے لوگ بھی یہاں سیاحت کے لیے آتے۔

اداکار و میزبان نے انسٹاگرام پر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کے سیر سپاٹے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نے بیس روپے کے نوٹ پر تاریخی شہر کی تصویر تو بنادی لیکن سیکھا کچھ نہیں‘۔

اداکار نے ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ پر بیس روپے کے نوٹ کے ساتھ کھچوائی گئی اپنی تصویر بھی شیئر کی۔

پاکستانی کرنسی کے بیس روپے کے نوٹ کے پیچھے تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کی تصویر ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قدیم تہذیب موئن جو دڑو دیکھنے کیلئیے سیاحوں کی آمد

بیس روپے کے علاوہ بھی پاکستانی کرنسی کے نوٹوں پر ملک کے دیگر تاریخی اور تہذیبی مقامات کی تصاویر چسپاں ہیں۔

یاسر حسین نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ میں 2500 قبل مسیح بھی ہر گھر میں ’ڈسٹ بن ہوتا تھا‘ کیوں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

اداکار نے تاریخی تہذیبی شہر کی طرز تعمیر اور وہاں پر ہزاروں سال قبل صفائی کے انتطامات ہونے کی تعریف کرتے ہوئے شکوہ بھی کیا کہ اب سندھ کا کچرا دیکھ کر انہیں دکھ ہوا۔

اداکار نے ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کی طرز تعمیر کی تصاویر بھی شیئر کیں، جس پر مداحوں نےان کی تعریفیں اور بعض لوگوں نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ یاسر حسین کےپاس بیس روپے کا نوٹ بھی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: موہن جودڑو : ماضی میں رقص کا مرکز

بعض مداحوں نے ان سے دریافت کیا کہ مذکورہ مقام کس جگہ ہے؟ کیوں کہ انہوں نے اس متعلق کوئی معلومات نہیں لکھی تھی۔

تاریخی تہذیبی شہر ’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں واقع ہے جو ماضی میں خود ایک تہذیب کی اہمیت رکھتا تھا۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ لاڑکانہ شہر سے 20 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے اور مذکورہ مقام اقوام متحدہ (یو این) کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کے ذیلی ادارے ’یونیسکو‘ کی عالمی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کے حوالے سے محقیقن میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کتنا قدیم ہے، تاہم زیادہ مورخین کے مطابق یہ 5 سے 7 ہزار سال پرانا تہذیبی شہر ہے۔

مورخین کہتے ہیں کہ ’انڈس سولائیزیشن‘ نامی تہذیب یہیں سے شروع ہوئی تھی جو بعد میں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوتی حالیہ سندھ میں تبدیل ہوگئی۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ کو 1992 میں متحدہ ہندوستان کے دوران کھدائی کے وقت دریافت کیا گیا اور قیام پاکستان کے بعد مذکورہ مقام پر مزید کھدائی کے بعد شہر سامنے آیا۔

’موہن جو دڑو‘ یا ’موئن جو دڑو‘ پر 1973 میں پہلی بار سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں پر عالمی ثقافتی کانفرنس منعقد کرکے اسے دنیا میں روشناس کروایا، جس کے بعد 1980 میں یونیسکو نے اسے ’عالمی ورثے کی فہرست‘ میں شامل کیا۔

ملک میں مزید ایک ہزار سے زائد کورونا کیسز رپورٹ، مجموعی تعداد 13 لاکھ سے متجاوز

ہولی وڈ فلم میں ’بولڈ‘ کردار کی پیش کش ہوئی تھی، سجل علی

حبا بخاری اور آرز احمد نے نکاح کرلیا