پاکستان

نور مقدم قتل: مرکزی ملزم کی ذہنی حالت کے جائزے کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست مسترد

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے دائر کی گئی درخواست خارج کردی۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کردی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے دائر کی گئی درخواست خارج کردی۔

قبل ازیں عدالت نے آج ہی فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

واضح رہے رہے کہ اسلام آباد کےپوش علاقےسیکٹر ایف7 - 4 میں 20 جولائی 2021 کو 27سالہ نورمقدم مردہ حالت میں پائی گئی تھیں، اسی دن جائے وقوع سے گرفتار ظاہر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ تعزیرات پاکستان دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کی دفعات ) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ٹرائل کورٹ نے 14اکتوبر 2021 کو مرکزی ظاہر جعفر سمیت 11ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی، مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، تین گھریلو ملازمین جن میں افتخار، جان محمد اور جمیل ، فزیو تھراپی ورکس کے طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمرعباس شامل ہیں۔

قتل کےمقدمے کا باقاعدہ ٹرائل 20 اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔

جیسے ہی عدالت نے نورمقدم کیس کی سماعت شروع کی تو سماعت کے دوران گواہوں سے جرح کی گئی اور قتل تک کے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی گئیں۔

مزید پڑھیں : نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

8دسمبر کو کاونسنلگ اور تھراپی کلینک (تھراپی ورکس ) کے مالک اور کیس میں نامزد ایک ملزم طاہرظہور کے وکیل نے عدالت سےسی سی ٹی وی فوٹیج سےمتعلق سماعت ان کیمرہ رکھنے کی استدعا کی ۔

واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نومبر میں لیک ہوگئی تھی جس کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تمام سیٹلائٹ چینلز کو فوٹیج نشر کرنےسے روک دیاتھا۔

سیشن عدالت میں آج سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج چلائی گئی جبکہ اس سے قبل تمام صحافیوں اور کیس سے غیر متعلق وکلا کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیا گیا، فوٹیج چلانے کے بعد کمرہ عدالت دوبارہ کھول دیا گیا۔

سماعت کےدوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کی جانب سے کمپیوٹر آپریٹر مدثر سے جرح کی گئی، جرح کے دوران وکیل نےسی سی ٹی وی فوٹیج کی طوالت اور اس ڈی وی آر کی میمیوری کی صلاحیت کے بارےمیں پوچھا جس میں یہ فوٹیج ریکارڈ ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ یکم دسمبرکو مرکزی ملزم کے وکیل نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ظاہرجعفرکی ذہنی حالت کا تعین کرنے کے لیےمیڈیکل بورڈ کے تشکیل کی استدعا کی گئی تھی ۔

یہ بھی پڑھیں :نور مقدم کیس: مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے، سپریم کورٹ

نورمقدم کے لواحقین کے وکیل ایڈووکیٹ شاہ خاور نے آج عدالت میں ملزم کی درخواست پر اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں عدالت سے ملزم کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

ایڈووکیٹ شاہ خاور نے کہا تھا کہ ظاہر جعفر مختلف مواقع پر ریمانڈ اور ٹرائل کےلیے عدالت کے سامنے پیش ہوتا رہا ہے، مرکزی ملزم کی جانب سے اپیل اس وقت فائل کی گئی جب ٹرائل مکمل ہورہا ہے۔

پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے یاع ہانی کروائی کہ ظاہر نے ایک سماعت کےدوران پوچھاتھا کہ اس کے خلاف دفعہ 201(جرم کےشواہد کومٹانےکی کوشش کی دفعہ) کیوں لگائی گئی ہے۔

شاہ خاور نے ملزم کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ظاہرمقامی اسکول میں طلبہ کی کاونسلنگ کرتارہا ہے۔

ملزم ظاہر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے بھی اپنے دلائل دیے اور عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد میڈیکل بورڈ کی تشکیل سے متعلق اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور کیس کی مزید سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی تھی۔

تاہم اب عدالت نے فیصلہ جاری کیا اور ملزم کی درخواست مسترد کردی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف-7/4 کے رہائشی اور سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج مقدمے کی روشنی میں ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر میں نہیں پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا، جس کے بعد ان کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آئیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس کے بعد ملزم کی کال موصول ہوئی جن کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے مقتولہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی اور انہیں آگاہ کیا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار آلے سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

بعدازاں پولیس نے بتایا تھا کہ ظاہر نے نور کے قتل کااعتراف کرلیا ہے مزیدبرآں ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ اور انگلیوں کے نشانات سے بھی قتل میں ملوث ہونا واضح ہے۔

نورمقدم قتل کیس میں ظہور سمیت تھراپی ورکس کے 6 ورکرز نامزد کیے گئے تھے اور دیگر 6 ملزمان جن میں مرکزی ملزم ظاہر کے والدین بھی شامل تھے ان پرفردجرم بھی عائد کی گئی تھی ۔

مداح صبا قمر کے ساتھ 50 سال کی عمر میں شادی کا خواہاں

کیا بٹ کوائن پاکستان کے مسائل کا حل ہے؟

'نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی خبریں بےبنیاد ہیں'