پاکستان

چیئرمین سینیٹ نے حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کا معاملہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا

وزیراعظم نے گزشتہ 3 سال کے دوران 14 ممالک کے 31 دورے کیے جن پر قومی خزانے سے 20 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت آئی، رپورٹ

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیراعظم عمران خان اور ملک کے سابق حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے معاملے پر اپوزیشن اراکین اور ایک حکومتی وزیر کے مابین زبانی جھڑپ کے بعد مکمل جائزہ لینے اور تقابلی رپورٹ کی تیاری کے لیے ایوان کی کمیٹی کو بھجوا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن اراکین نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کے وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ 3 سال کے دوران غیر ملکی دوروں سے متعلق سوال کے جواب میں دیے گئے بیان پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ٹوکن واک آؤٹ کیا۔

سینیٹ کو جماعت اسلامی (جے آئی) کے مشتاق احمد کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے گزشتہ 3 سال کے دوران 14 ممالک کے 31 دورے کیے جن پر قومی خزانے سے 20 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت آئی۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم قانونی اصلاحات کا مؤثر نفاذ نہ ہونے پر پریشان ہیں، اٹارنی جنرل

تحریری جواب پڑھتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر نے کہا کہ عمران خان نے سعودی عرب کے 8، چین اور متحدہ عرب امارات کے 3، 3 جبکہ ملائیشیا، قطر، امریکا اور سوئٹزرلینڈ کے 2، 2 دورے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے ترکی، بحرین، افغانستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان کا بھی دورہ کیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر نے کہا کہ جواب کے مطابق ان دوروں پر اوسطاً 22 افراد وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ایک دورے میں وزیراعظم کے ساتھ 44 افراد بھی تھے۔

انہوں نے حکومت سے پوچھا کہ بتایا جائے ان دوروں سے ملک کو کیا سفارتی اور معاشی فوائد حاصل ہوئے۔

مزید پڑھیں:وزیر اعظم عمران خان 3 روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے

سوال کے جواب میں وزیر نے حسب معمول سابق حکمرانوں پر طنز کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ انہیں آئندہ چند روز کا وقت دیا جائے تاکہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری کے عمران خان کے دوروں سے موازنہ پیش کر سکیں۔ وزیر کے جواب میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کرنا شروع کردیا جس پر چیئرمین سینیٹ وزیر کو مخصوص جواب دینے کا کہنے پر مجبور ہوئے۔

اس پر وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم خان نے غیر ضروری دوروں کے دوران کبھی بھی غیر ضروری لوگوں کو ساتھ نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ متعلقہ وزرا کے علاوہ متعدد سیکیورٹی اور پروٹوکول اہلکار ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے عمران خان کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی نے چیئرمین سے کہا کہ وہ اس معاملے کو کمیٹی کو بھیجیں جہاں وہ وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کا تجزیہ اور ان کا موازنہ سابق حکمرانوں کے دوروں سے کر سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کا 'بغیر پروٹوکول' اسلام آباد کے مختلف علاقوں کا دورہ

ان کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ نے معاملہ متعلقہ ہاؤس کمیٹی کو بھجوا دیا۔

جب پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے پارلیمنٹیرینز کی ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ قرار دیا تو صادق سنجرانی نے معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھجوادیا اور اسے ایک ہفتے میں حتمی شکل دینے کی ہدایت کی۔

پارٹی کے ساتھیوں کی مثالیں دیتے ہوئے رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایف بی آر نے غلط معلومات فراہم کیں جس کو میڈیا نے ہائی لائٹ کرکے یہ تاثر دیا کہ پارلیمنٹیرینز چور اور لٹیرے ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے۔

قبل ازیں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹ کو بتایا گیا کہ 73ممالک کی جیلوں میں اس وقت 9 ہزار 191 پاکستانی قید ہیں۔

ایوان کو فراہم کی گئی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی جیلوں میں سب سے زیادہ 2 ہزار 555 قیدی ہیں، اس کے بعد متحدہ عرب امارات میں ایک ہزار 918 جبکہ یونان میں 884 قیدی پاکستانی ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں تاجک تاجروں سے ہر ممکن تعاون کریں گے، عمران خان

جن دیگر ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہے ان میں افغانستان (395)، ہندوستان (345)، عمان (309)، اٹلی (291)، برطانیہ (273)، ترکی (265)، چین اور ملائیشیا (242)، قطر شامل ہیں۔ (189) اسپین (163)، ہانگ کانگ (130)، جرمنی (105)، عراق (109)، ایران (100)، فرانس (98)، کویت (65)، بحرین (56)، امریکا (52) اور آسٹریلیا میں (48) ہیں۔

سینیٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ گوانتاناموبے میں تین پاکستانی شہری قید ہیں جو سیف اللہ پراچہ، محمد احمد ربانی عرف احمد غلام ربانی اور عبدالرحیم غلام ربانی ہیں۔

امریکا: ایک دن میں کورونا کے ریکارڈ 10 لاکھ سے زائد کیسز سامنے آگئے

فارن فنڈنگ کیس: 'پی ٹی آئی نے غیر ملکی اکاؤنٹس چھپانے کی کوشش کی'

اومیکرون سے بیماری کی شدت کم ہونے کے ثبوت بڑھ رہے ہیں، ڈبلیو ایچ او