دنیا

عالمی طاقتوں کا جوہری عدم پھیلاؤ کو یقینی بنانے کا عہد

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ایٹمی جنگ کبھی جیتی نہیں جاسکتی اور اسے کبھی لڑا بھی نہیں جانا چاہیے۔

امریکا اور روس سمیت دنیا کی پانچ بڑی ایٹمی قوتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور کسی ایٹمی تصادم سے بچنے کا عہد کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے 5 مستقل ممالک یعنی امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس نے مشرق اور مغرب کے درمیان تناؤ کو ایک جانب رکھتے ہوئے مشترکہ بیان میں دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

اپنے مشترکہ بیان میں ان ممالک کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنا چاہیے‘ اور یہ کہ ’ایک ایٹمی جنگ کبھی جیتی نہیں جاسکتی اور اسے کبھی لڑا بھی نہیں جانا چاہیے‘۔

یہ مشترکہ بیان ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر ہونے والی نظر ثانی کے بعد جاری ہوا، اس اجلاس کی مقرہ تاریخ 4 جنوری تھی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے اسے ملتوی کردیا گیا۔

روس، چین اور مغربی ممالک کے ساتھ ان کے اختلافات کو ایک جانب رکھتے ہوئے ان 5 بڑی طاقتوں نے کہا ہے کہ وہ ’ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ سے بچنے اور اسٹریٹجک خطرات کم کرنے کو اپنی سب سے اہم ذمہ داری سمجھتے ہیں‘۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے دور رس اثرات ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ جب تک یہ ہتھیار موجود رہیں گے ان کا استعمال صرف دفاعی مقاصد اور جنگ کو روکنے کے لیے کیا جائے گا‘۔

ان ممالک کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم میں سے ہر ملک ایٹمی ہتھیاروں کے بلا اجازت اور غیر ارادی استعمال کو روکنے کے حوالے سے قومی اقدامات کو برقرار رکھنے اور مزید مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے معاہدے کا پابند نہیں، دفترخارجہ

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے بشمول اس کے آرٹیکل 6 کے پابند ہیں‘، یہ آرٹیکل مستقبل میں ایٹمی ہتھیاروں کی مکمل تخفیف کے حوالے سے ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 191 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور اس معاہدے کے مطابق اس پر ہر 5 سال بعد نظر ثانی کرنی ہوتی ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور روس کے درمیان تعلقات سرد جنگ کے بعد سب سے زیادہ کشیدہ ہیں اور اس کی وجہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد کے نزدیک فوج جمع کرنا ہے۔

اس حوالے سے یورپی سیکیورٹی پر روس اور امریکا کے درمیان بات چیت 10 جنوری کو جنیوا میں شروع ہونے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین کا ابھرنا بھی اس حوالے سے خدشات کا باعث ہے کہ امریکا اور چین کے مابین تناؤ خاص طور پر تائیوان کے معاملے پر ان کے آمنے سامنے آنے سے کوئی بحران کھڑا ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا سے کشیدگی، ایران نے زیر زمین جوہری تنصیبات کی تعمیر شروع کردی

چین، تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کے بزور قوت الحاق کے لیے بھی تیار ہے۔

روس نے ایٹمی ممالک کی جانب سے آنے والے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے تناؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی سیکیورٹی کے حوالے سے اس مشکل صورتحال میں اس قسم کے سیاسی بیان کی منظوری بین الاقوامی تناؤ کو کم کرنے میں مدد کرے گی‘۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ روس اب بھی ایٹمی ممالک کے اجلاس کو ’ضروری‘ سمجھتا ہے۔


**یہ خبر 4 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔ **