دنیا

فوج مخالف مظاہروں کے دوران سوڈانی وزیراعظم مستعفی

سوڈانی وزیراعظم نے فوج کے ساتھ سیاسی معاہدے کے تحت بحال ہونے کے بعد 2 ماہ سے بھی کم مدت میں استعفیٰ دیا۔

خرطوم: فوج کے ساتھ سیاسی معاہدے کے تحت بحال ہونے کے بعد 2 ماہ سے بھی کم مدت میں سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹی وی پر نشر اپن ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ سوڈان میں جمہوریت کی تبدیلی کے لیے ہمیں ایک نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا یہ اعلان اس تناظر میں سامنے آیا کہ جب دارالحکومت کو گزشتہ ماہ کے آغاز سے جاری بے رحمانہ فوجی حکومت مخالف مظاہروں نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

خیال رہے کہ ملک اس وقت انتشار کا شکارہو گیا تھا جب سوڈان کے اصل رہنما عمر بشیر کی معزولی کے بعد عبدالفتاح البرہان نے 25 اکتوبر کو اپنی بغاوت کا آغاز کیا اور وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک کو حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سوڈان: فوجی حکمران نے تنقید پر 6 سفیروں کو برطرف کردیا

بعدازاں عبداللہ حمدوک کو 21 نومبر کو بحال کردیا گیا تھا لیکن فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج دو ماہ سے زیادہ جاری رہا کیونکہ مظاہرین کو جنرل عبدالفتاح برہان کے ملک میں مکمل جمہوریت کی بحالی کے وعدے پر اعتبار نہیں تھا۔

طبی حکام کے مطابق اتوار کے روز مظاہروں کےدوران سوڈانی سیکیورٹی فورسز نے دومظاہرین کو قتل کیا، جبکہ ہزاروں لوگوں نے سویلین حکومت کی بحالی کے مطالبے کے لیے آنسو گیس ، بھاری فوجی تعیناتی اور مواصلاتی نظام کی بندش کا سامنا کیا۔

مظاہرین نے خرطوم میں صدارتی محل کے قریب اور اس کےجڑواں شہر اومڈرمان میں جنرل عبدل فتاح البرہان کی جانب سے کی گئی فوجی بغاوت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’عوام کو اختیار دو‘ کے نعرے لگائے اور فوج کے بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ کیا۔

فوجی بغاوت کے بعد سے مظاہرے مسلسل جاری ہیں، ایسے میں گزشتہ مظاہرے میں دارالحکومت اور اس کے اطراف کے علاقوں کے درمیان دریائے نیل کے پل کو شپنگ کنٹینرز لگا کر بلاک کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:سوڈان: فوجی حکومت کے خلاف احتجاج پر پولیس کی فائرنگ، کم از کم تین افراد ہلاک

تاہم فوجی بغاوت کے بعد سے مارے گئے 56 مظاہرین کی یاد میں ہزاروں لوگ مظاہرہ کرنے کے لیے باہر نکلے، طبی ماہرین کے مطابق اب تک 56 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔

ڈاکٹروں کی جمہوریت پسند کمیٹی کے مطابق اتوار کے روز اومڈورمان میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے ایک شخص کو سینے میں گولی ماری جبکہ دوسرے کو ’سر میں شدید زخم‘ آئے۔

ویب مانیٹرنگ گروپ نیٹ بلاکس کے مطابق سال کے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے گئےمظاہرے سے قبل موبائل انٹرنیٹ سروسز صبح سویرے بند کردی گئیں

رضاکاروں نے مظاہروں کو منظم کرنے اور ریلیوں کو براہِ راست نشر کرنے کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کیا۔

سوڈان جو کہ فوجی بغاوت کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، 2019میں عوامی مظاہروں کے بعد مطلق العنان حکمران عمرالبشیر کی بے دخلی کے بعد سے سویلین حکمرانی کی بحالی کی جانب ایک نازک سفر سے گزررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سوڈان میں 'بغاوت': وزیراعظم اور دیگر عہدیدار زیر حراست، انٹرنیٹ سروس معطل

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے ذریعے مظاہروں کو کئی بار منتشر کیا۔

خرطوم میں چھ لوگوں کو اس وقت گولیاں ماری گئیں جب ہزاروں لوگ ریلی کی شکل میں سڑکوں پر نکلے اور فوجی حکمرانی کے خلاف نعرے لگائے جبکہ عبدالفتح برہان نے اصرار کیا کہ فوجی اقدام بغاوت نہیں ہے بلکہ سول حکمرانی کی منتقلی کی جانب ایک دھکا ہے۔

قبل ازیں ایک مشیر نے متنبہ کیا تھا کہ مظاہرے صرف وقت اور طاقت کا ضیاع ہیں اور ان سے کسی قسم کا کوئی سیاسی حل نہیں نکلے گا جبکہ رضاکاروں کا سوشل میڈیا پر کہنا ہے کہ سال 2022 مزاحمت جاری رکھنے کا سال ہے۔

انہوں نے فوجی بغاوت سے اب تک اور عمر بشیر کی حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے والے مظاہروں کے دوران مارے گئے 250 سے زائد افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔

ریحام خان کی گاڑی ’چھیننے‘ کی کوشش، نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج

ایف آئی اے نے کراچی میں حوالہ ہنڈی کا نیٹ ورک پکڑ لیا

’ملک میں مکمل سیاسی، معاشی استحکام ہے، قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے‘