پاکستان

معاشرے کو خود بدعنوانی، جنسی جرائم سے لڑنا ہوگا، وزیراعظم

ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بد قسمتی سے صرف ایک فیصد جرائم رپورٹ ہوتے ہیں، عمران خان

بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور جنسی جرائم کو مسلم دنیا کو درپیش دو اہم برائیاں قرار دیتے ہوئے، وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ اسکالرز کے ساتھ اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ نوجوانوں کو ان کے عقائد، مذہبی اور اخلاقی اقدار پر سوشل میڈیا کے حملے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی رحمت للعالمین اتھارٹی کے زیر اہتمام ریاست مدینہ، اسلام، معاشرہ اور اخلاقی بیداری کے موضوع پر مکالمے کی دوسری نشست منعقد کی گئی۔

اس نشست میں وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے کو دو قسم کے جرائم کاسامنا ہے ایک بدعنوانی اور دوسرا جنسی جرائم، ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بد قسمتی سے صرف ایک فیصد جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کمزور اور طاقتور کیلئے الگ، الگ قانون ہونے سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، وزیراعظم

وزیراعظم نے کہا کہ میرے ذاتی خیال میں بقیہ 99 فیصد جرائم کے ساتھ معاشرے کو نمٹنا ہوگا، بد قسمتی سے جب طویل عرصے تک ایک بدعنوان قیادت آپ پر مسلط رہی ہو تو وہ کرپشن کو قابل قبول بنا دیتی ہے۔

بین الاقوامی اسکالرز کا نقطہ نظر لیتے ہوئے عمران خان نے اشارہ کیا کہ وہ مستقبل میں بھی معروف اسکالرز کے ساتھ اسی طرح کے مکالمے کریں گے، ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اس طرح کے فکر انگیز سیشن مہینے یا دو ماہ میں ایک مرتبہ منعقد کیے جائیں گے۔

وزیر اعظم نے مسلمان نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر دستیاب بیہودہ اور فحش مواد کی لپیٹ میں آنے سے بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس موقع پر موجود علما نے جدیدیت کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے مسلمان ممالک کی جانب سے کچھ اجتماعی کوششوں کی تجویز دی۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی اور سنت کے بارے میں بیداری پیدا کر کے نوجوان مسلمانوں کو دور جدید کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے درکار خصوصیات سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔

علما کا ردِ عمل

علما نے سوشل میڈیا کے ذریعے فحش مواد کی بے لگام دستیابی، بدعنوانی، خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے اضافے کے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں اور آج کل کے معاشرے کو درپیش دیگر چیلنجوں کے بارے میں وزیراعظم کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر سید حسن نصر نے کہا کہ مسلمان نوجوانوں پر جدید رجحانات کے اثرات آج پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا نوجوانوں کے لیے ایک زیادہ خطرناک اور خطرناک جگہ ہے، مسلم نوجوانوں کی ایسی تعلیمات سے رہنمائی کرنی چاہیے جو مستند ہوں اور ان چیلنجز سے متعلق ہوں جن کا اُنہیں سامنا ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم عمران خان کا رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان

ایک اور امریکی سکالر شیخ حمزہ یوسف نے بدعنوانی کے مسئلے کو ایک بوسیدہ سیب سے تشبیہ دی ہے جو معاشرے کو تباہ کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن پاک نے کرپشن کے مسئلے اور افراد اور معاشرے پر اس کے اثرات کی وضاحت کی ہے۔

ان کا نقطہ نظر تھا کہ اسلام نے مردوں کو معاشرے میں عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال کا کام سونپا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو خواتین کی عزت کرنا سکھایا جائے۔

'محرم' جیسے تصورات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حمزہ یوسف نے کہا کہ خواتین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضور ﷺ نے ہمیشہ ان چیزوں پر کیوں زور دیا تھا۔

کیمبرج مسلم کالج برطانیہ کے ڈین ڈاکٹر ٹموتھی ونٹر/ عبدالحکیم مراد نے کہا کہ نوجوان نسلوں کے لیے موبائل فون کی معلومات دنیا بھر کے بیشتر معاشروں کے لیے ایک حقیقی چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کلیدی محرک ان چیزوں کی ہائی ریزولیوشن تصاویر کی چھوٹے بچوں تک کے لیے دستیابی رہی ہے جو نجی ہونی چاہئیں اور انہیں عوامی تفریح کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر نوعمر ذہن بار بار ان تصاویر کا عادی ہو جاتا ہے تو نیورو سائنسدانوں کی نشاندہی کے مطابق اس کے نتیجے میں مستقل نقصان ہوتا ہے۔

ترکی کے ماہر تعلیم ڈاکٹر رجب شنتک نے کہا کہ مسلمان نوجوانوں کو سنت نبوی ﷺ سے اخذ کردہ اخلاقیات کو اپنانے کی تلقین کی جانی چاہیے، انہیں سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی فکری آزادی کو فروغ دینے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔

ملائیشیا کے ماہر عمرانیات اور مفکر ڈاکٹر چندرا مظفر نے مسلمان نوجوانوں کی کانفرنسز کے انعقاد کی تجویز پیش کی جہاں نوجوان حصہ لے سکیں، اپنے ذہن کی بات کر سکیں اور دورِ حاضر کے چیلنجز اور ان حل کے بارے میں اپنا مؤقف بیان کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم نے مسلم اقتدار اور مسلمانوں کے زوال پر مبنی ویڈیو جاری کردی

اس کے علاوہ ملائیشیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر عثمان بکر نے کہا کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبا روحانی روایات کے بارے میں جاننے کے خواہشمند ہیں۔

انہوں نے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کی ضرورت پر زور دیا، جو ان کے بقول استحکام لائے گا۔

علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کی فتویٰ کونسل کے چیئرمین شیخ عبداللہ بن بایا نے کہا کہ ہم عالمگیریت کے دور میں رہ رہے ہیں اور سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور دیگر جدید تصورات کی آمد کا نوجوانوں پر بہت زیادہ اثر ہے۔

اس نے نوجوانوں کے لیے ’سکینہ‘ کی تلاش کا خیال پیش کیا، جس کا مطلب ذہنی سکون ہے۔

ان کے مطابق یہ روح کی خوبی ہے جو انسان کے ذہن سے اضطراب کو دور کرنے میں مدد کرتی ہے۔شیخ عبداللہ نے مسلم نوجوانوں کے لیے ایک یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا جو اخلاقیات اور اخلاقیات کی تعلیم پر توجہ دے سکے۔

حسنین کا بگ بیش میں ٹرپل وکٹ میڈن کے ساتھ شاندار ڈیبیو

کووڈ سے گردوں پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

کیپ ٹاؤن میں نیشنل اسمبلی کی عمارت میں آگ لگ گئی، ایک شخص گرفتار