دنیا

چین نے متنازع ہمالیائی خطے میں مختلف مقامات کے نئے نام رکھ دیے ہیں، بھارت

اروناچل پردیش ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہا ہے اور جگہوں کے نئے نام رکھنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی، ترجمان بھارتی وزارت خارجہ

بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ چین نے متنازع ہمالیائی خطے میں ان کی سرحد کے قریب کئی مقامات کے نئے نام رکھ لیا ہے اور اور یہ سرحدی خودمختاری پر دعویٰ کے مترادف ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان جون 2020 میں لداخ اور تبت کے علاقے میں کشیدگی کے بعد سرحدی تنازع اور تعلقات میں ڈرامائی انداز میں سردمہری آگئی ہے۔

مزید پڑھیں: لداخ تنازع: بھارت، چین کے درمیان مذاکرات ’ناکام‘، سرحدی کشیدگی میں اضافہ

دونوں ممالک نے سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی تعینات کردیے اور عسکری تنصیبات لگائی ہیں جبکہ کشیدگی کم کرنے کے لیے ہونے والے مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔

چین کی وزارت شہری امور نے کہا تھا کہ زینگنان (جنوبی تبت) میں 15 جگہوں کے ناموں کو معیاری بنایا ہے اور مذکورہ علاقوں کے نام چینی میں رکھ دیے گئے ہیں۔

بھارت جس خطے کو اروناچل پردیش کا نام دیتا ہے، اسی خطے کو چین زینگنان کہتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین نے رہائشی علاقوں، دریاؤں اور پہاڑوں کے ناموں کی ایسی ہی تبدیلی 2017 میں کی تھی جن میں 6 مقامات اسی علاقےمیں تھے۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘اروناچل پردیش ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہا ہے اور رہے گا’۔

وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے کہا کہ ‘اروناچل پردیش میں مختلف جگہوں کے نئے نام رکھنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی’۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا ہمالیہ میں بھارتی سرحد کے قریب دنیا کا سب بڑا ڈیم بنانے کا منصوبہ

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجان نے کہا کہ ‘جنوبی تبت چین کے تبت خومختار خطے میں ہے اور تاریخی طور پر چیت کی حدود میں ہے’ اور نئے نام دینا کا فیصلہ چین کی خودمختاری کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ تبت صدیوں سے کبھی آزاد اور کبھی چین کے زیرانتظام رہا ہے تاہم اب تبت کا دعویٰ ہے کہ 1951 میں پرامن آزادی حاصل کرلی ہے۔

تبت نے اپنی سرحدوں میں فوج تعینات کررکھی ہے اور چین کی جانب سے خطے کی ملکیت کے دعوے کو یکسر مسترد کرتا رہا ہے۔

دوسری جانب بھارت کا خیال ہے کہ چین میں رواں برس اکتوبرمیں بننے والے سرحدی اراضی کا نیا قانون بیجنگ کی سخت پوزیشن ہے، یہ قانون یکم جنوری کو نافذالعمل ہوگا۔

چین اس قانون کو اپنی خود مختاری، سالمیت اور چین کے اپنے سرحدی علاقوں کے دفاع اور سرحد پر مخالف فریق کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت کو ناکام بنانے کے لیے اہم قرار دیتا ہے۔

بھارت نے اکتوبر میں اس حوالے سے کہا تھا کہ توقع ہے کہ چین اس قانون کے تحت اقدامات سے گریز کرے گا ورنہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر صورت حال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: لداخ تنازع: بھارت اور چین کا سرحد سے فوج واپس بلانے پر اتفاق

بھارت اور چین کی سرحدیں ہمالیہ سے ملتی ہیں اور دونوں ممالک میں طویل عرصے سے سرحدی تنازع جاری ہے، دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔

چین، بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90 ہزار مربع کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کے متعلقہ حکام درجنوں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔

رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ لداخ کی وادی گلوان میں 15 جون 2020 کو لڑائی کے دوران کوئی گولی نہیں چلائی گئی اور بھارتی فوجیوں کو پتھروں سے مارا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ ایشیا کی مسلح جوہری طاقتوں کے مابین دہائیوں میں بدترین تصادم تھا۔

آئی ایم ایف کے مطالبے پر سیلز ٹیکس 17 فیصد کیا، چیئرمین ایف بی آر

’جنسی استحصال‘ کے مقدمے میں شہزادہ اینڈریو نے جواب جمع کرادیا

دوران پرواز کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے پر خود کو گھنٹوں تک ٹوائلٹ میں بند رکھنے والی خاتون