جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کا معاملہ آئندہ چیف جسٹس کیلئے مؤخر کرنے پر زور
سپریم کورٹ میں جونیئر جج کی ترقی کے عمل کے خلاف مہم کو تیز کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) گلزار احمد کو مشورہ دیا کہ وہ تقرر کا طریقہ کار اپنے جانشین پر چھوڑ دیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایس سی بی اے کے اجلاس میں منظور کی گئی مشترکہ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ مناسب ہوگا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ میں ترقی کے معاملے کو اگلے چیف جسٹس کے طے کرنے کے لیے مؤخر کر دیں۔
اجلاس میں پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین خوشدل خان اور کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین محمد مسعود چشتی بطور خاص مدعو کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بحث کیلئے جے سی پی کا اجلاس 6 جنوری کو ہوگا
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس سی بی اے کے صدر محمد احسن بھون چیف جسٹس کے نوٹس میں ان کے اپنے قائم کردہ اصول لائے کہ اگر کسی چیف جسٹس کی مدت ملازمت ختم ہونے کے قریب ہے تو اسے سپریم کورٹ میں ترقی کا عمل شروع نہیں کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ موجودہ چیف جسٹس یکم فروری 2022 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا ایس سی بی اے نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ چونکہ ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کے قریب ہے اور ان کے ریٹائر ہونے میں صرف ایک ماہ باقی ہے، اس لیے مناسب ہوگا کہ وہ اس معاملے کو اپنے جانشین کے لیے مؤخر کر دیں۔
ایس سی بی اے کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس احسن بھون کی صدارت میں ہوا، جس میں جسٹس عائشہ ملک کو عدالت عظمیٰ کی بطور پہلی خاتون جج ترقی دینے کے لیے آئندہ ہفتے کے اوائل میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے تناظر میں معاملات پر غور کیا گیا۔
مزید پڑھیں:جونیئر جج عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بار کونسل کا مخالفت کا منصوبہ
جونیئر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے معاملے پر غور اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے دو روز قبل پی بی سی نے 3 جنوری 2022 کو ایک اجلاس بلایا تھا۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان نےایگزیکٹو کمیٹیوں کے وائس چیئرمینوں، وکلا کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے اراکین، ایس سی بی اے کے صدر، صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلز اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کو پیر کے اجلاس میں شرکت کے لیے خطوط لکھے ہیں۔
ایس سی بی اے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 175-اے میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا جو اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کے طریقہ کار سے متعلق ہے اور آرٹیکل 209، جو اعلیٰ عدالت کے جج کو ہٹانے کے طریقے بتاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا
احس بھون نے کہا کہ ترامیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر، ترقی یا برطرفی سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی گئی باڈی کو بااختیار بنا کر دونوں فورمز یعنی جے سی پی اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک میں ضم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ جے سی پی کی تشکیل پر نظرثانی کی جائے اور بار کی تنظیموں کے کم از کم دو نمائندوں اور اپوزیشن جماعتوں کے مساوی نمائندوں کو کمیشن میں نمائندگی دی جائے۔
احسن بھون کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ہائی کورٹس میں ترقی کے لیے وہی معیار اپنایا جائے جس میں چیف جسٹس اور متعلقہ ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج کے ساتھ ساتھ متعلقہ بار کونسل کے ایک ممبر اور پی بی سی کے ایک ممبر کے ساتھ مشاورت کی جائے۔