وائل کارنیل میڈیسین اور نیویارک Presbyterian کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ زچگی سے کچھ وقت پہلے کووڈ ویکسینیشن کرانے سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز میں کوئی ڈرامائی اضافہ نہیں ہوتا۔
تحقیق میں 1400 کے قریب خواتین اور بچوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
ان خواتین نے حمل کے 9 ماہ کے دوران مختلف مہینوں میں کووڈ ویکسینیشن کرائی تھی اور ان میں اینٹی باڈیز کی سطح کو دیکھا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زچگی کے موقع پر اینٹی باڈیز کی سطح اس وقت زیادہ تھی جب ابتدائی ویکسینیشن تیسری سہ ماہی کے دوران کے ہوئی ہو۔
مگر محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ حمل کے آغاز یا اس سے چند ہفتے قبل ویکسینیشن کرانے پر بھی اینٹی باڈیز کی سطح کافی زیادہ ہوتی ہے اور بیماری سے تاحال تحفظ مل رہا ہوتا ہے، جبکہ حمل کی آخری سہ ماہی میں بوسٹر ڈوز سے اینٹی باڈیز کی سطح میں کافی زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کی جانب سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ حمل کے دوران ویکسینیشن کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے تو ہمارے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ جب موقع ملے ویکسینیشن کرالیں۔
سابقہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ قبل از وقت پیدا، بچے کی مردہ پیدائش اور دیگر پیچیدگیوں کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
ویکسینیشن سے حاملہ خواتین کو بیماری کے سنگین اثرات سے تحفظ ملتا ہے اور زچگی کے بعد آنول کے ذریعے بچے کے خون میں بھی اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں۔
اس تحقیق میں مجموعی طور پر 1359 حاملہ خواتین کو شامل کیا گی اتھا جن کی ویکسینیشن زچگی سے 6 ہفتے پہلے یا اس کے دوران ہوئی تھی اور بچوں کی پیدائش حمل کے 34 ہفتے یا اس کے بعد نیویارک کے ہسپتال میں ہوئی۔
انہوں نے دریافت کیا کہ اسپائیک پروٹین کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز زچگی کے موقع پر قابل شناخت ہوتی ہیں، چاہے ویکسین کی پہلی خوراک جب بھی استعمال کی گئی ہو۔