پاکستان

صرف پہلی بیوی ہی شوہر کی دوسری شادی کو چیلنج کر سکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ

قانون کے تحت متاثرہ فرد تو پہلی بیوی ہے، اس کے بھائی کو اس حوالے سے ایف آئی آر درج کروانے کا اختیار نہیں، عدالت

لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرلے تو صرف پہلی بیوی ہی دوسری شادی کو چیلنج کر سکتی ہے۔

جسٹس محمد امجد رفیق نے یہ حکم دیتے ہوئے ایک شخص کے خلاف اس کے سالے کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر خارج کردی، ایف آئی آر درج کروانے والے کا مؤقف تھا کہ اس کے بہنوئی نے اپنی پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرلی ہے۔

شیخوپورہ پولیس نے 2013 میں پہلی بیوی کے بھائی کی درخواست پر غضنفر نوید کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔

اس سے قبل 2011 میں بھی اس شخص کی جانب سے ان ہی الزامات پر غضنفر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی جسے جوڈیشل مجسٹریٹ نے منسوخ کردیا تھا۔

دوسری ایف آئی آر میں پہلی بیوی کے بھائی نے یہ مؤقف اپنایا کہ غضنفر نے اپنی پہلی بیوی کا جعلی اجازت نامہ تیار کرکے دوسری شادی کی ہے۔

عدالت میں درخواست گزار غضنفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں مشہور کیس ’صغراں بی بی بنام ریاست‘ (پی ایل ڈی 2018 ایس سی 595) میں دیے گئے حکم کے مطابق یکساں حقائق کی بنیاد پر دو مرتبہ ایف آئی آر درج نہیں کی جاسکتی اور درخواست گزار کے خلاف درج دونوں آیف آئی آر میں کوئی فرق نہیں ہے۔

وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ میاں بیوی کے درمیان تھا اور نکاح نامے کی شرائط و ضوابط سے متعلق ہے، ایسی صورت میں فیملی کورٹ ایکٹ 1964 میں دیے گئے خصوصی اختیارات کے تحت یہ معاملہ عام عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

مزید پڑھیں: دوسری شادی کیلئے مصالحتی کونسل سے اجازت کی شرط لازمی قرار

دوسری جانب ایف آئی آر درج کروانے والے شخص کے وکیل کا کہنا تھا کہ جعلی اجازت نامہ بنوانا خاندانی جھگڑے میں شامل نہیں اس وجہ سے اس معاملے کو فیملی کورٹ نہیں دیکھ سکتی۔

جسٹس محمد امجد رفیق نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے تحت دوسری ایف آئی آر کی اجازت نہیں ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایف آئی آر منسوخ کردی جائے تو درخواست گزار اس پر نظر ثانی کے لیے ایک نجی شکایت یا درخواست دے سکتا ہے۔

جسٹس محمد امجد رفیق نے کہا کہ اس مقدمے میں ایف آئی آر درج کروانے والے نے ایسا نہیں کیا جس وجہ سے دوسری ایف آئی آر درج کروانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، عدالت نے یہ بھی کہا کہ اجازت نامے کے اصلی یا جعلی ہونے کا فیصلہ فیملی کورٹ کرے گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ دی مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے سیکشن 6 (5) کے تحت متاثرہ فرد تو پہلی بیوی ہے، تاہم پہلی بیوی نے شوہر کی دوسری شادی کو چیلنج نہیں کیا، عدالت کے مطابق پہلی بیوی کے بھائی کو اس حوالے سے ایف آئی آر درج کروانے کا اختیار نہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ مجسٹریٹ کے پاس اس مقدمے کا نوٹس لینے کا جواز نہیں تھا، یہ مقدمہ خصوصی طور پر فیملی کورٹ میں قابل سماعت ہے۔

عدالت نے ایف آئی آر خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ ایف آئی آر قانون کے تحت قابل قبول نہیں ہے۔

تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ پہلی بیوی، فیملی کورٹ میں اس بنیاد پر درخواست دے سکتی ہے کہ اس کے شوہر نے اس کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی ہے۔


یہ خبر 30 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔