اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا بل کابینہ سے منظور
وفاقی کابینہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 کے ترمیم شدہ مسودے کو منظور کر لیا ہے جس میں بینک کو خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک سے لیے جانے والے حکومتی قرضوں پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس پیشرفت کی تصدیق کی تھی۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی شقیں آئین کے خلاف ہیں، فروغ نسیم
اس قانون کو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے منظوری دیتے ہوئے قانون کی شکل دے دی گئی ہے۔
یہ قانون شرح نمو کے بجائے مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دیتی ہے کیونکہ جولائی 2019 کو پاکستان نے جس آئی ایم ایف پروگرام پر رضامندی ظاہر کی تھی اس کے تحت یہ عمل لازمی قرار دیا گیا تھا۔
مذکورہ پروگرام کے تحت آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی اصلاحاتی پروگرام کے حوالے سے 39ماہ کے لیے 6ارب ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
اس قانون کے بعد توسیعی فنڈ سہولت کی ایک ارب ڈالر کی قسط کی راہ ہموار ہوگی جو رواں سال اپریل سے تعطل کا شکار ہے۔
گزشتہ ماہ نومبر میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 6ارب ڈالر کی بحلی کے پروگرام کا معاہدہ ہوا تھا، اس معاہدے کی منظوری کا دارومدار عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جس کے بعد پاکستان کو مالیاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات سمیت پانچ نکات پر عمل کرنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک سے متعلق ترمیم آئی ایم ایف سے منسلک نہیں، فروغ نسیم
اسی معاہدے کے تحت پاکستان نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے بھی اتفاق کیا تھا اور آج اس پروگرام پر قومی اسمبلی میں بحث بھی کی گئی۔
کابینہ کی جانب سے منظور کردہ بل کے مسودے کے تحت مقامی سطح پر قیمتوں میں استحکام اور معاون اقتصادی پالیسیوں کا قیام اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد ہے۔
مزید برآں بل پر کیے گئے اعتراضات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مسودے میں تجویز کردہ ترامیم بہترین بین الاقوامی طریقوں کے عین مطابق ہیں اور اس میں پاکستان کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ملکی معاشی استحکام کے لیے یہ ترامیم پائیدار ترقی اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے نمٹنے میں مدد دیں گی کیونکہ ماضی میں اس کے نتائج مہنگائی، غربت اور کم شرح نمو کی شکل میں سامنے آئے۔
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کے سیکریٹری کو اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز میں برقرار رکھا جائے لیکن انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھا جائے، اسی طرح، ڈپٹی گورنرز کو بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کا حق ہوگا لیکن ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک سے متعلق مجوزہ قانون میں اعلیٰ افسران کیلئے 'تحفظ'
اسٹیٹ بینک کے گورنر بورڈ کے چیئرپرسن ہوں گے، ان کی غیر موجودگی میں متعلقہ بورڈ میٹنگ کے ایجنڈے کی صدارت ڈپٹی گورنر کریں گے، گورنر کی غیر موجودگی میں بورڈ کی صدارت کرنے کی صورت میں ڈپٹی گورنر کے پاس فیصلہ کن ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ باہمی معاہدے کے ذریعے قریبی روابط رکھ سکیں گے اور مرکزی بینک اور وزارت دونوں سے متعلقہ تمام معاملات پر ایک دوسرے کو مکمل طور پر آگاہ رکھیں گے۔
اسی طرح اگر وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں کوئی ایسا بل پیش کیا جاتا ہے جو اسٹیٹ بینک کے کاموں پر اثرانداز ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں بل متعارف کرانے سے قبل اسٹیٹ بینک سے مشورہ کیا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک میں تقرریاں
بل میں اسٹیٹ بینک کے گورنر اور بینک کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی تقرری کے لیے معیار اور طریقہ کار بھی بیان کیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ ان کا تقرر وفاقی حکومت کی سفارش پر اس ایکٹ میں طے شدہ اہلیت اور نااہلی کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنرز کا تقرر وفاقی حکومت وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے مابین مشاورت کے بعد کرے گی، ان کا تقرر تین امیدواروں کے پینل سے کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کابینہ اجلاس میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کی منظوری
اسی طرح ایم پی سی بی کے بیرونی اراکین کا تقرر وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بورڈ کی سفارشات پر کرے گی۔
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ گورنر، ڈپٹی گورنرز، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور ایم پی سی اراکین کی تقرری پانچ سال کی مدت کے لیے کی جائے گی اور وہ اپنی ابتدائی مدت کے اختتام کے بعد پانچ سال کی دوسری مدت کے لیے دوبارہ تقرری کے اہل ہوں گے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اگر گورنر سنگین بدتمیزی کا ارتکاب کرتے ہیں یا جسمانی و ذہنی معذوری کی وجہ سے اپنے دفتری امور کی ادائیگی سے قاصر ہوں تو وفاقی حکومت گورنر یا ڈپٹی گورنر کو ہٹا سکتی ہے ۔
حکومت کے قرض لینے پر پابندی
بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہو گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ بینک حکومت، یا حکومتی ملکیتی ادارے یا کسی دوسرے عوامی ادارے کو براہ راست قرض نہیں دے گا اور نہ ہی اس کی ضمانت دے گا۔
اس حوالے سے کہا ہے کہ مالی اثرات کے لحاظ سے حکومت فی الحال مارکیٹ ریٹ پر قرض لے رہی ہے اور ترامیم کے بعد بھی مارکیٹ ریٹ پر قرض لینا جاری رکھے گی۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف، حکومت کا اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کیلئے لچک کا مظاہرہ
بل کے مطابق مرکزی بینک بنیادی منڈی میں فوجی و سرکاری منصوبوں و اشیا سمیت سرکاری سیکیورٹیز نہیں خریدے گی۔
تاہم اس حوالے سے وضاحت کی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک کسی بھی ایسی ثانوی منڈی میں سرکاری سیکیورٹیز خرید سکتا ہے جہاں سرمایہ کاروں کے درمیان ان آلات کی تجارت ہوتی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق مرکزی بینک کو واجب الادا قرض ادا کرے اور رول اوور کی اجازت نہ دی جائے۔
یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ اس ترمیم کا مقصد مالیاتی طور پر نظم و ضبط لانا ہے۔
کسی کو احتساب سے کوئی استثنیٰ نہیں ہو گا
نظرثانی شدہ مسودے میں اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز، بورڈ کے ڈائریکٹرز بشمول موجودہ ڈائریکٹرز اور جو لوگ ریٹائر ہو چکے ہیں یا اپنی مدت ملازمت پوری کر چکے ہیں، کو احتساب کے نگراں اداروں، قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سے حاصل استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے اور استثنیٰ فراہم کرنے والی شق ختم کردی گئی ہے۔
بل میں ترمیم سے تمام بینک حکام کو عدالتوں اور احتساب کے نگراں اداروں سے مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔