کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون قسم کی ایک خاص بات اس کے اسپائیک پروٹین میں متعدد تبدیلیاں آنا ہے جو موجودہ ویکسینز اور علاج کی افادیت کے لیے خطرہ ہے۔
اس تحقیق میں اومیکرون قسم کے خلاف ویکسینیشن سے وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال لیبارٹری ٹیسٹوں میں کی گئی۔
اس مقصد کے لیے اینٹی باڈیز کو زندہ وائرسز کے مقابلے پر لایا گیا۔
موڈرنا، فائزر، ایسٹرا زینیکا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز کو ویکسینیشن کرانے والے افراد سے حاصل کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چاروں ویکسینز کی اینٹی باڈیز کی افادیت سابقہ اقسام کے مقابلے میں اومیکرون قسم کے خلاف نمایاں حد تک کم ہوئی۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ جن افراد کو فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی اضافہ خوراک دی گئی، انہیں اومیکرون سے زیادہ بہتر تحفظ ملا، حالانکہ اینٹی باڈیز کی سرگرمیاں اس صورت میں بھی کم دریافت ہوئیں۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ماضٰ میں کووڈ کا سامنا کرنے والے مریض اور ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد میں اومیکرون قسم سے بیمار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ تیسری خوراک سے بھی اومیکرون سے مناسب تحفظ نہیں ملتا، مگر یقیناً ہم بوسٹر ڈوز کے استعمال کا مشورہ دیں گے کیونکہ اس سے کسی حد تک مدافعت ضرور پیدا ہوجائے گی۔
اس تحقیق کے نتائج دیگر تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں جن کے مطابق ویکسین کی 2 خوراکوں کی اومیکرون سے تحفظ کی شرح میں نمایاں حد تک کمی آتی ہے۔
اس نئی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت کووڈ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے مختلف طریقہ کار بھی اومیکرون کے خلاف کم مؤثر ہیں۔
تحقیق میں اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں 4 نئی میوٹیشنز کو بھی شناخت کیا گیا جو وائرس کو اینٹی باڈیز پر حملہ آور ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
محققین کے مطابق یہ تفصیلات اس نئی قسم سے مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی کو ڈیزائن کرنے میں مدد فراہم کرسکے گی۔