پاکستان

پی ٹی آئی ورکرز کا نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل پر اظہار برہمی

سب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے صرف بلدیاتی انتخابات میں شکست کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے تھی، پارٹی رہنما

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز نے وزیر اعظم عمران خان کے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے کے فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزرا کو پارٹی کے نئے عہدیداران کے طور پر مقرر کرنے پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

پارٹی ورکرز ان وزرا کو ہی خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی اصل وجہ سمجھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے، جو پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کو پارٹی کا مرکزی سیکریٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر عامر محمود کیانی ایڈیشنل سیکریٹری جنرل، وزیر تعلیم شفقت محمود کو پنجاب کا صدر، وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار کو جنوبی پنجاب کا صدر، وزیر دفاع پرویز خٹک کو خیبر پختونخوا کا صدر، وزیر بحری امور علی زیدی کو سندھ کا صدر اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو بلوچستان کا صدر مقرر کیا ہے۔

پارٹی رہنماؤں نے کہا کہ سب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے صرف شکست کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے تھی۔

پنجاب میں پارٹی کے ناراض رہنما نے کہا کہ ’ہم پارٹی چیئرمین عمران خان کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کور کمیٹی کی جانب سے بھر میں پارٹی تنظیموں کو تحلیل کرنے کے پیچھے حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کے نئے تنظیمی ڈھانچے کا اعلان

فیصلے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا خیال ظاہر کیا کہ پی ٹی آئی کو آئندہ بلدیاتی انتخابات اور بالآخر عام انتخابات سے قبل بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ تنظیمی نظام کو تحلیل کرنے سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ایک اور سینئر رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی، خیبر پختونخوا میں حکومت کی جانب سے صاف حکمرانی کو یقینی بنانے میں ناکامی اور اعلیٰ پارلیمنٹیرینز کی بدانتظامی کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ہار گئی، ان پارلیمنٹیرینز نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹ دلانے میں مدد کی، لیکن اس کے بجائے پارٹی کے منتظمین کو سزا دی گئی‘۔

مرکز اور صوبوں میں وفاقی وزرا کی بطور پارٹی سربراہان تقرر پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے دعویٰ کیا کہ یہ وزرا اپنے متعلقہ ڈومینز میں اپنی کارکردگی کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہے اور اب انہیں اضافی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔

سینئر رہنما نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی عہدیداران نے سیاسی ذمہ داریاں بھی سنبھال لی ہیں اور بظاہر اب تمام مسائل حل ہو جائیں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی عہدیداران خراب طرز حکمرانی کے ذمہ دار ہیں، لیکن سیاسی کارکنان کو جنبش قلم سے قائدانہ کردار سے ہٹا دیا گیا‘۔

مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات میں شکست، تحریک انصاف کی تمام تنظیمیں تحلیل

پارٹی کے ایک بانی رکن، جن کا پارٹی میں قائدانہ کردار نہیں ہے، نے کہا کہ پی ٹی آئی لاکھوں کارکنان پر مشتمل ہے لیکن حیرت انگیز طور پر کچھ کارکنوں کو متعدد ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

شفقت محمود کے پی ٹی آئی پنجاب کے صدر کے طور پر تقرر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک صوبائی رہنما نے کہا کہ ’پارٹی، وزیر تعلیم کی قیادت میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات ہار گئی تھی‘۔

شفقت محمود نے رابطہ کرنے پر کہا کہ وزیر اعظم نے پارٹی کو نچلی سطح پر دوبارہ منظم کرنے اور دوبارہ فعال کرنے کے لیے نیا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے، ہم مستقبل کے انتخابی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پارٹی کی تنظیم نو کے لیے یہاں موجود ہیں۔

زبانی حکم پر ملازم کو نوکری سے برطرف کرنا ’غیر قانونی‘ ہے، سپریم کورٹ

امریکا نے طالبان، حقانی نیٹ ورک کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے کا راستہ نکال لیا

سندھ کے وزیر سے شادی کا دعویٰ ’شغل میلا‘ لگانے کے لیے کیا، حریم شاہ کا اعتراف