سستی اور صاف بجلی تمام شہریوں کا حق ہے
بھلے ہی پاکستان کاربن کے صفر اخراج کا لاکھ بار عزم کرے مگر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی اہداف پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا اور موجودہ پالیسیوں کے ہوتے ہوئے اقتصادی پیداوار میں اضافے کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی۔
یاد رکھیے کہ جب تک پاکستان توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی سمت نہیں بدلے گا تب تک توانائی کا بحران، گردشی قرضہ اور شہری آلودگی کے مسائل بھی بڑھتے رہیں گے۔ قابلِ تجدید توانائی تعمیراتی لاگت میں کمی لانے، غیرملکی زرمبادلہ پر دباؤ گھٹانے اور دور دراز کے پس ماندہ علاقوں کی محرومیاں دور اور شہروں میں صاف ہوا کے لیے کاربن اخراج کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
تاہم پاکستان کی توانائی کی پالیسی عالمی رجحانات سے متصادم ہے۔ 2006ء کی پالیسی میں ایک ہزار 235 میگا واٹ ہوا اور 430 میگاواٹ سورج سے قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کا ہدف شامل کیا گیا تھا مگر آگے چل کر پاکستان نے ان ابتدائی اہداف کو ترک کردیا۔ 2019ء میں موجودہ حکومت کی جانب سے The Alternative & Renewable Energy (ARE) کی پالیسی اختیار کی گئی جس میں 2030ء تک ہائیڈروپاور کے علاوہ قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کی جانے والی توانائی کا ہدف 30 فیصد تک محدود کردیا گیا۔
پڑھیے: دنیا میں پھیلتی 'توانائی کی غربت'
2021ء میں منظور کیے جانے والے Indicative Generation Capacity Expansion پلان میں یہ ہدف مزید 12 فیصد تک گھٹا دیا گیا تھا۔ پلان میں 'کم سے کم لاگت کے آپشن' پر زور دیا گیا تھا۔ پلان میں قابلِ تجدید توانائی کی تعریف میں تبدیلی کے ساتھ ہائیڈرو پاور میں موسمی بہاؤ کے عمل دخل کا تذکرہ شامل کردیا گیا جو کہ سابقہ اے ار ای پالیسی میں شامل ہی نہیں تھا۔ اس اہم تبدیلی نے شمسی اور ہوائی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے امکانات کم سے کم کردیے ہیں۔ وقت اور اخراجات کے اعتبار سے ہائیڈرو پاور منصوبوں کی نسبت کم لاگت والے شمسی توانائی کے منصوبوں کو بڑی حد تک مقامی مالیاتی ذرائع سے تعمیر کیا جاسکتا تھا لیکن مذکورہ تبدیلی نے ہائیڈروپاور کے منصوبوں کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاریوں کی راہ ہموار کردی ہے۔ اس اقدام نے ایک دوسرے سے متضاد رائے رکھنے والے صوبوں کے درمیان اختلافات کو مزید گہرا کردیا ہے۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب شمسی توانائی تاریخ کی سستی ترین بجلی کا ذریعہ بن گئی تھی، بڑے ملکوں میں اسے کوئلے اور گیس سے بھی سستا بجلی کا پیداواری ذریعہ قرار دیا گیا۔ International Energy Agency کی سالانہ رپورٹ World Energy Outlook 2020 کے مطابق 2009ء کے بعد سے سولر photovoltaic (پی وی) پینلز سے بننے والی بجلی کی لاگت میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اقتصادی منطق کی پیروی کرنے کے بجائے پاکستان نے الٹا راستہ اختیار کیا۔ تاہم ہمارے پڑوسیوں بھارت اور چین نے اپنے فیصلے اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے۔
اسی عرصے کے دوران بھارت نے ہوائی توانائی میں پانچویں عالمی پوزیشن حاصل کی اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والا چوتھا سب سے بڑا ملک بنا۔ بھارت میں قابلِ تجدید توانائی کی سالانہ پیداواری شرح 17 فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔ بھارت نے ابتدائی طور پر 2022ء تک 20 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف رکھا تھا جسے مقررہ وقت سے پہلے ہی حاصل کرلیا گیا۔ بھارت کو یہ تیز ترین کامیابی چین سے منگوائے گئے پی وی پینلز کی وجہ سے حاصل ہوسکی تھی جبکہ پاکستان میں قائد اعظم سولر پارک منصوبہ عدم دلچسپی اور تاخیر کا شکار رہا۔ دوسری طرف چین میں توانائی کی مجموعی صلاحیت میں سے قابل تجدید توانائی کا حصہ 40 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ توانائی کی مجموعی پیداوار کا 26 فیصد حصہ بنتا ہے۔ بھارت اور چین سبز توانائی کے محاذ پر آگے ہیں اور تعمیراتی لاگت میں کمی کرتے ہوئے اپنی اقتصادی پیداواری شرح میں تیزی لاچکے ہیں۔
پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہمارے اقدامات دنیا کو نظر کیوں نہیں آتے؟
قابلِ تجدید توانائی کی مارکیٹ کو ملنے والے فروغ کی وجہ کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کے لیے مطلوب بھاری اخراجات اور آلودگی ہیں۔ پیرس معاہدے کے بعد سے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں کی کھپت میں 76 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ 45 ممالک کوئلے سے چلنے والے مزید منصوبے نہ بنانے کا عزم کرچکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ کوئلے سے چلنے والے 2 بجلی گھروں سے 2 ہزار 600 میگا واٹ بجلی حاصل کرتا رہے گا جبکہ بنگلہ دیش نے اسی طرح کے 8 ہزار 711 میگا واٹ بجلی کے 10 طے شدہ بجلی گھروں کے منصوبوں کی منسوخی کا اعلان کردیا تھا۔ پاکستان کے فیصلے جرات اور دوراندیشی سے محروم تھے۔
یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2020ء میں ہونے والی کلائمٹ ایکشن سمٹ کے دوران وزیراعظم عمران خان کے اس وعدے سے پاکستان مکر گیا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ، 'ہمارے پاس اب مزید کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی نہیں ہوگی۔' ان کی اس بات کو 'درآمد شدہ' کوئلے کے معاملے میں ہی ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ انہوں نے مقامی کوئلے کی liquification اور gasification کا بھی عہد کیا تھا۔ تاہم 9 فعال اور تکمیل کے قریب 5 منصوبوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ چونکہ کوئلے سے پاکستان کا رومانس چند برس قبل ہی پروان چڑھا ہے اس لیے فی الحال یہاں کوئلہ ماضی کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔
اس کی مثال 19.26 فیصد کی سالانہ اضافے کی شرح سے بڑھتی ہوئی کوئلے کی درآمدات ہیں۔ اگرچہ کم درجے کے تھری کوئلے سے چلنے والے منصوبوں پر تو اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کا پہیہ اونچے درجے کے درآمد شدہ جنوبی افریقی کوئلے سے چلایا جا رہا ہے۔ کوئلہ نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ تیزی سے پھیلتی سیمنٹ کی صنعت کے لیے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اقتصادی پیداواری شرح بڑھانے کے لیے سیمنٹ کی صنعت کو رہائشی تعمیرات کے ذریعے تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔
ہائیڈرو پاور کسی وقت میں بجلی پیدا کرنے کا سستا ذریعہ ہوتا تھا لیکن شمسی اور ہوائی توانائی کے معاملے میں وقت اور ہوا کی تیزی جیسی محدودات کے باوجود طویل مدت کے لیے توانائی کو ذخیرہ کرنے والی بیٹریوں کے آجانے سے قابلِ تجدید توانائی کے ان ذرائع نے ہائیڈرو پاور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تربیلا اور منگلہ ڈیم کے علاوہ تمام سرکاری ہائیڈرو پاور منصوبے تاخیر اور اضافی لاگتوں کا شکار رہے ہیں۔ مثلاً 969 میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے کی اوسط فی یونٹ کی لاگت 16 سے 18 سینٹ تک پہنچ چکی ہے، اس کے مقابلے میں شمسی توانائی کے منصوبوں کی ایک کلوواٹ آور بجلی پر 4 سے 5 سینٹ خرچ ہوتے ہیں۔ تعمیراتی کام کے آغاز سے قبل مالی جانچ پڑتال کی عدم موجودگی کے باعث (دیامیر-بھاشا، مہمند) جیسے بڑے منصوبے اور (داسو، کوہالا، سکی کناری، کاروٹ، آزاد پتن جیسے) 'رن آف دی ریور' منصوبے بھی اسی طرح کی اضافی لاگتوں کا شکار ہوجائیں گے۔
پڑھیے: کیا پاکستان میں بجلی کا بھی ایکسچینج قائم ہوسکتا ہے؟
بے شک ہمیں پانی کے ذخائر مطلوب ہیں لیکن ان کو توانائی کی ضرورتوں سے الگ کرنا ہوگا۔ شمسی توانائی کے منصوبوں کو چند مہینوں کے اندرنصب کیا جاسکتا ہے اور اسٹیٹ بینک قرضوں کی واپسی کی مدت 7 سے 10 برس کے بجائے 20 برس تک بڑھاتے ہوئے ان منصوبوں کی لاگت کو مزید گھٹانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔
اب جبکہ ہم ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں لہٰذا حکومت کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ بجلی کی رسائی کے ناقص معیار کی وجہ سے 6 کروڑ 10 لاکھ افراد بجلی سے محروم ہیں۔ ہماری تقریباً 46 فیصد دیہی آبادی بجلی کے بغیر گزارا کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹرانسمیشن جال کا معیار بہتر بنانے کے لیے 20 ارب ڈالر کا سرمایہ مطلوب ہے اور اس کام کی تکمیل کے لیے 2040ء تک انتظار کرنا ہوگا۔ دہائیوں تک ٹرانسمیشن لائنز کی اپ گریڈیشن کا انتظار کرنے کے بجائے پس ماندہ علاقوں میں آف گرڈ منصوبوں کے ذریعے بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔
ان کی زندگیوں میں روشنی لانے کے لیے منی یا مائیکرو گرڈز قائم کرتے ہوئے بجلی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں شہری آبادی کو سولر ہوم سسٹم کی مدد سے آف گرڈ کرنے کے لیے اسکولوں، صحت کے مراکز، چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں و دیگر کو مائیکرو فنانس کی سہولیات اور دیہی توانائی کے کاروباری ماڈلز کے ذریعے شمسی توانائی فراہم کی جاسکتی ہے۔
National Electric Vehicles کی پالیسی اسی صورت میں ہی معنی خیز ثابت ہوگی جب برقی گاڑیوں کی ابھرتی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے والے چارجنگ انفرااسٹرکچر کو ہائبرڈ سولر سسٹم کا سہارا حاصل ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقتصادی ترقی کی لاگت کو کم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار اور فراہمی کے غریب پرور طریقے اختیار کرے۔ بلاشبہ قابلِ اعتماد، سستی اور صاف توانائی کا حصول تمام شہریوں کا حق ہے۔
یہ مضمون 23 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔