یہ دعویٰ اومیکرون کے حوالے سے برطانیہ میں جاری اولین ڈیٹا میں سامنے آیا۔
ڈیٹا کے مطابق اومیکرون قسم کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ کم نظر آتی ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتباہ بھی کیا گیا کہ اگرچہ بیماری کی شدت معمولی ہوسکتی ہے مگر اس کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کے باعث طبی نظام پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
امپرئیل کالج لندن کی جانب سے 2 تحقیقی رپورٹس میں اس ڈیٹا کو جاری کیا گیا جن کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اومیکرون سے متاثر افراد کے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے۔
اس ڈیٹا میں یکم سے 14 دسمبر کے دوران برطانیہ میں پی سی آر ٹیسٹوں سے مصدقہ کووڈ کیسز کے ریکارڈ کو دیکھا گیا جس میں 56 ہزار کیسز اومیکرون جبکہ 2 لاکھ 69 ہزار ڈیلٹا کے تھے۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں ہسپتال جانے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں 20 سے 25 فیصد تک کم ہوتا ہے جبکہ کم از کم ایک رات کے لیے ہسپتال میں قیام کا امکان 40 سے 45 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد جو پہلے کووڈ سے متاثر نہ ہوئے ہوں یا ویکسینیشن کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں 11 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اگرچہ اومیکرون سے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا سے کم نظر آتا ہے مگر یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم ویکسینز کی افادیت میں کمی لاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اومیکرون قسم کے زیادہ متعدی ہونے کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کے نتجے میں طبی نظام پر دباؤ بڑھ سکتا ہے اور کیسز کی شرح میں آنے والے ہفتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔
امپرئیل کالج کی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد میں اومیکرون سے دوبارہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ ہسپتال پہنچتے ہیں، ان کے قیام کا دورانیہ ڈیلٹا کے مقابلے میں اوسطاً 0.22 دن کم ہوتا ہے، مگر اس حوالے سے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔