اسلام آباد ہائیکورٹ: ڈی ایچ اے پلاٹس کی الاٹمنٹ منسوخی کے خلاف درخواست دائر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں جائیداد کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے اور جائیداد منجمد کرنے کے حوالے سے جنرل ہیڈکواٹرز کے ایجوٹنٹ جنرل (اے جی) کے اختیارات کے متعلق درخواست پر ابتدائی سماعت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے کے سابق سیکریٹری کرنل ریٹائرڈ اعجاز حسین کی جانب سے دائر درخواست میں اے جی کی جانب سے جائیداد کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے اور ان پر انتباہ جاری کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھایا گیا، ایجوٹنٹ جنرل اپنے منصب کی بنا پر ڈی ایچ اے کا صدر بھی ہوتا ہے۔
کرنل ریٹائرڈ اعجاز حسین کو دسمبر 2012 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر 3 سال کے لیے ڈی ایچ اے اسلام آباد ۔ راولپنڈی کا سیکریٹری تعینات کیا گیا تھا، جس کے بعد دسمبر 2015 سے اگست 2019 تک ہر سال ان کے کنٹریکٹ میں توسیع کی جاتی رہی۔
مزید پڑھیے: دفاعی زمین تجارتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی، زمین حکومت کو واپس کریں، چیف جسٹس
ڈی ایچ اے میں کام کے دوران انہوں نے 2 پلاٹ حاصل کیے، ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کے دیگر افسران کو بھی پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔
تاہم جب 2019 میں انہوں نے اپنے دونوں پلاٹ فروخت کرنے کی کوشش کی تو حکام نے انہیں این او سی جاری کرنے سے انکار کردیا۔
انہیں معلوم ہوا کہ ان کے دونوں پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی ہے، اس پر انتباہ جاری کردیا گیا ہے اور وہ ان جائیدادوں کو کسی دوسرے شخص کے نام منتقل نہیں کر سکتے۔
اپنی درخواست میں انہوں نے ایجوٹنٹ جنرل، جی ایچ کیو کے ری ہیبلیٹیشن اینڈ ورکس ڈائریکٹوریٹ کے ڈی جی اور ڈی ایچ اے اسلام آباد۔ راولپنڈی کے ایڈمنسٹریٹر اور سیکریٹری کو بھی نامزد کیا ہے۔
اپنی درخواست میں ان کا کہنا ہے کہ ’جائیدادوں پر پابندی عائد کرنا/انتباہ جاری کرنا/جائیداد کی ضبطگی/جائیداد کی منسوخی ڈی ایچ اے اسلام آباد ۔ راولپنڈی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا‘۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد ۔ راولپنڈی ایکٹ 2013 کے سیکشن 17 کے مطابق ڈی ایچ اے تمام قانونی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد اور زمین کے مالک کو وضاحت کا موقع دینے کے بعد ہی الاٹمنٹ منسوخ کر سکتا ہے۔
درخواست کے مطابق نیب، ایف بی آر اور اینٹی نارکوٹکس فورس جیسے ادارے بھی عدالت کے ذریعے محدود مدت کے لیے ہی کسی جائیداد کو ضبط کر سکتے ہیں لیکن ڈی ایچ اے نے ان کی اور ان کے گھر والوں کی جائیدادوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے ضبط کرلیا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ڈی ایچ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ نے اپنے طور پر ان جائیدادوں کو ضبط نہیں کیا بلکہ ایجوٹنٹ جنرل کی جانب سے جاری ہونے والے ایک خط میں اس کا حکم دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر جی ایچ کیو کو اس معاملے میں نامزد نہیں کیا گیا تھا لیکن ان معلومات کے سامنے آنے کے بعد عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ اسے بھی ایک ضروری فریق کے طور پر شامل کرے۔
مزید پڑھیے: کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے کو مزید زمین حاصل کرنے سے روک دیا
جی ایچ کیو کے وکیل کے مطابق اعجاز حسین کو ایک کمرشل پلازہ کی غیر قانونی منظوری کے حوالے سے ایک انکوائری کا سامنا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل راجا انعام امین منہاس نے کہا کہ جی ایچ کیو اور ڈی ایچ اے، پاکستان آرمی ایکٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ایکٹ کے تحت کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق عسکری حکام کسی بھی دوسرے ادارے میں کام کرنے والے ریٹائرڈ فوجی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے، یہ کارروائی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ اگر سابق افسر پر جاسوسی یا کسی فوجی افسر کو بغاوت پر اکسانے جیسے الزامات ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کوٹ کے ڈویژن بینچ نے اس مقدمے کو سنا اور سماعت فروری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
یہ خبر 23 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔