سندھ ہائیکورٹ کی آرزو کو دارالامان سے والدین کے ساتھ جانے کی اجازت
سندھ ہائی کورٹ نے کم عمری میں شادہ کرنے والی نومسلم لڑکی آرزو کو دارالامان بھیجنے کے ایک سال سے زائد عرصے بعد والدین کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دے دی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے میڈیکل بورڈ کی جانب سے آرزو کی عمر 14 سال سے کم ہونے کی تصدیق اور والدین کے ساتھ گھر جانے سے انکار پر 9 نومبر 2020 کو انہیں شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی: عدالت کا آرزو کے مبینہ شوہر کے خلاف 'ریپ' کی دفعہ شامل کرنے کا حکم
آرزو نے عدالت کے سامنے بیان دیا تھا کہ انہوں نے مذہب تبدیل کرکے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر اس وقت کہا تھا کہ بادی النظر میں آرزو کی عمر قانونی شادی کےلیے ناکافی ہے اور پولیس کا ان کے مبینہ شوہر سید علی اظہر سے سندھ چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی پر پوچھ گچھ کا کہا تھا۔
گزشتہ روز آرزو نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے کہ اتھ اکہ وہ اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے معاملے کی سماعت کی اور آرزو کو اپنے والدین کے پاس واپس جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ لڑکی کو اظہر سےملنے اجازت نہیں ہوگی۔
عدالت نے آرزو کے والدین کو حکم دیا کہ وہ ذاتی طور پر 25 ہزار کے ضمانی بونڈ کے ساتھ حلف نامہ جمع کرائیں کہ وہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے آرزو پر دباؤ نہیں ڈالیں گے کیونکہ وہ خود عدالت کو بتاچکی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے آرزو کے والدین کو مزید ہدایت کی کہ وہ ان کے علاقے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو رپورٹ کریں اور آرزو کو 18 سال کی عمر تک ہر تین ماہ بعد ان کے سامنے پیش کریں۔
عدالت نے کہا کہ اس ہدایت کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ اس بات کو یقنی بنایا جائے کہ آیا والدین لڑکی پر دباؤ تو نہیں ڈال رہے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ ایس ایچ او کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے رپورٹ عدالت کے انسپکشن ٹیم کے رکن کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ جمع کرائے۔
کیس کا پس منظر
آرزو کے والد راجا کی جانب سےگزشتہ برس 13 اکتوبر کو درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق وہ کام پر تھے کہ انہیں ایک رشتے دار کی جانب سے فون موصول ہوا کہ آرزو کراچی کی ریلوے کالونی میں اپنے گھر سے لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ واقعے کےوقت ان کی اہلیہ اور بیٹے شہباز بھی کام پر تھے جبکہ آرزو اور ان کی دو بہنیں گھر پر موجود تھیں۔
راجا نے بتایا تھا کہ وہ گھر واپس آکر ہمسایوں سے رابطہ کیا لیکن اپنی بیٹی کا سراغ نہیں لگا سکا اور اس کے بعد فریئر پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔
مزید پڑھیں: دارالامان میں آرزو راجا کی دیکھ بھال کیلئے سماجی بہبود کی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم
بعد ازاں پولیس نے اظہر اور ان کے بھائیوں سید محسن علی اور سید شارق علی اور ان کے دوست دانش کو مبینہ طور پر نابالغ لڑکی کے اغوا، جبری مذہب تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے لیے دباؤ ڈالنے کےمقدمے میں نامزد کیا تھا۔
پولیس نے عالم دین قاضی عبدالرسول، جنید علی صدیقی اور محمود حسن کو سہولت کاری اور نابالغ لڑکی سے اظہر کی شادی کروانے کے الزام میں مقدمےمیں نامزد کردیا تھا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے گزشتہ برس دسمبر میں اظہر کے خلاف مقدمے میں ریپ کی دفعہ بھی شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔