نقطہ نظر

قائدِاعظم کی شخصیت کے وہ جذباتی پہلو جو انہیں بہترین رول ماڈل بناتے ہیں

رتی کی وفات کے کئی سال بعد تک بھی وہ کسی شب ان کی چیزیں منگوا کر انہیں خاموشی سے دیکھتے رہتے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔

یہ 1929ء کا بمبئی تھا اور برِصغیر کا چوٹی کا وکیل غم کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کا سیاسی کریئر بھی ڈوبنے کو تھا اور مایوسی کے عالم میں وہ کچھ ماہ بعد لندن روانہ ہوگیا۔ یہ وکیل قائدِاعظم محمد علی جناح تھے۔

ان کی اہلیہ رتن بائی یا رتی نیند کی مٹھی بھر گولیاں کھانے کے بعد ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ اس کی وجہ آج تک واضح نہیں ہوسکی۔ ان کے رومان پر کئی بھڑکتے ہوئے تنازعات حاوی آگئے تھے۔ اپنے آخری خطوط میں سے ایک میں انہوں نے قائدِاعظم کو لکھا کہ ’میرے محبوب! کوشش کریں کہ مجھے ایک ایسے پھول کے طور پر یاد رکھیں جسے آپ نے چنا نہ کہ کسی ایسے پھول کے طور پر کہ جسے آپ نے روندا‘۔

قائدِاعظم اور رتن بائی کی شادی کو شیلا ریڈی نے ’بھارت میں تہلکہ مچا دینی والی شادی‘ لکھا ہے۔ اگرچہ مجھ سے بہتر لکھاری بھی اس موضوع پر قلم اٹھا چکے ہیں لیکن اس شادی میں پنہاں خوبصورتی، درد اور الجھاؤ کو پوری طرح بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم پاکستانیوں کے لیے قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کی تفہیم بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی متضاد پہلوؤں میں ایک پہلو ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

قائدِاعظم خود میں محدود رہنے والے اور خاموش طبع انسان کے طور پر جانے جاتے تھے، کہتے ہیں کہ انہیں عوام میں صرف 2 مرتبہ روتا ہوا دیکھا گیا ہے، پہلی بار 1929ء میں رتی کے جنازے میں اور دوسری مرتبہ 1947ء میں جب وہ آخری مرتبہ رتی کی قبر پر گئے تھے۔

مزید پڑھیے: قصہ قائد کے لباس کا

ایم سی چھاگلہ رتی کے جنازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’یہ واحد موقع تھا جب میں نے جناح کو انسانی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ حقیقت سب کو نہیں معلوم کہ لندن میں مقیم ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے ان کی خواہش تھی کہ وہ دی گلوب میں رومیو کا کردار ادا کریں۔ حالات اور زمانے کا ستم دیکھیں کہ پریوں کی کہانی کی طرح شروع ہونے والی داستانِ محبت کا انجام ایسے المیے پر ہوا جو شیکسپیئر کے کسی بھی ڈرامے کا مقابلہ کرسکتا ہے‘۔

یہ صرف کچھ گنوا دینے کی بات نہیں ہے، شواہد بتاتے ہیں کہ قائدِاعظم اپنی ذمہ داری کے حوالے سے احساسِ جرم کا شکار تھے۔ قائدِاعظم رتی سے 24 سال بڑے تھے۔ رتی کے والد پارسی تھے جن سے قائدِاعظم کی دوستی رتی کی پیدائش سے بھی قبل ہوگئی تھی۔ رتی قائدِاعظم کو ’جے‘ پکارتی تھیں اور چھٹیوں میں ان کے ساتھ دنیا بھر میں گھومتیں، اپنے بنگلے میں بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتیں اور قائدِاعظم کی شخصیت کے مخصوص انداز میں بھی ان کا بہت ہاتھ تھا۔

لیکن قائدِاعظم کی طرح اپنی سیاسی جدوجہد میں مگن رہنے والے شخص کے لیے رتی کی طالب فطرت کا ساتھ دینا مشکل تھا۔ یوں دُوریاں بڑھتی رہیں۔ رتی کی وفات کے کئی سال بعد قائدِاعظم نے ایک دوست کے سامنے اقرار کیا کہ ’وہ بچی تھی، مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی، میں نے غلطی کی‘۔

قائدِاعظم کی کم آمیز شخصیت کی وجہ سے ان کے ذہن میں جھانکنا تو بہت مشکل ہے تاہم یہ بات درست ہے کہ رتی کی وفات کے بعد کے سال ان کی زندگی کا مشکل ترین عرصہ تھا۔ اس دوران ہندوستان میں بھی ان کی تحریک متزلزل تھی یوں وہ ہندوستانی سیاست کو چھوڑ کر وکالت کی غرض سے لندن چلے گئے۔

ہیکٹر بولیتھو کے مطابق یہ عرصہ ’جناح کی زندگی میں ترتیب اور غور و فکر کا عرصہ تھا، یہ ان کی ابتدائی جدوجہد اور فتح کے طوفان کے درمیان کا مرحلہ تھا‘۔ اگرچہ وہ اس فتح کو حاصل کرنے کے لیے 1934ء میں واپس آچکے تھے اور مشکل دور بھی گزر چکا تھا لیکن شاید ان کا غم اب بھی تازہ تھا۔

قائدِاعظم کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ اپنی اہلیہ کی وفات کے 12 سال بعد تک بھی بعض اوقات وہ رات کے کسی پہر اٹھ جاتے اور لکڑی کا ایک بڑا صندوق کھولنے کا حکم دیتے جس میں ان کے اہلیہ کی چیزیں رکھی ہوتیں۔ ’وہ خاموشی سے ان چیزوں کو دیکھتے رہتے یہاں تک کہ ان کی آنکھوں میں نمی آجاتی۔۔۔‘۔

قائدِاعظم کی شخصیت کے اس نرم پہلو کو بڑی حد تک نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہم اپنے درمیان موجود افراد کو ولی کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی ولی نہیں بن سکتا۔ تاریخ کی کتابوں میں ہمارے ہیروز کو ناقابلِ تردید عزم کے حامل اور استقامت کے کوہ گراں کے طور پر دکھایا جاتا ہے، ایسے افراد جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے بغیر رکے مسلسل کام کیے جانے کے لیے پُرعزم ہوں۔

اگرچہ یہ تصویر کشی نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہے تاہم یہ ان کے کردار کی گہرائی سے خیانت ہے۔ قائدِاعظم اس وجہ سے ہمارے ہیرو نہیں ہیں کہ ان میں کوئی خامی نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہمارے ہیرو ہیں کہ ان میں ان تمام خامیوں کو عبور کرنے کی صلاحیت تھی۔

مزید پڑھیے: میرِ کارواں ہے محمد علی جناحؒ!

انہیں ان خامیوں سے مبرا کرکے پیش کرنا دراصل خود کو اور اپنے بچوں کو ایک اچھے رول ماڈل سے محروم کرنا ہے۔ ایک ایسا رول ماڈل جو مغموم ہو، احساسِ جرم کا شکار ہو اور اسے ایک ایسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو جس سے وہ نفرت کرتا تھا، لیکن اس نے اس کے باوجود امید نہیں چھوڑی۔ انہوں نے ناممکنات کا مقابلہ کیا اور دنیا کا جغرافیہ بدلتے ہوئے تاریخ رقم کردی۔ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایسا رول ماڈل ایک جذبات سے عاری تصویر کی نسبت زیادہ مؤثر ہوگا جو ان کی درسی کتابوں میں سے انہیں دیکھتا ہے۔

قائدِاعظم کے اس پہلو کو یاد کرنے سے ماضی کے بارے میں ایک ایماندارانہ گفتگو شروع ہوتی ہے جو حال کے بارے میں گہری شناسائی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ حال ہی میں کراچی کے ایک شاپنگ مال کی چھت سے ایک شخص نے چھلانگ لگا دی۔ اس کے آخری لمحات کی ایک ویڈیو میری یادداشت پر نقش ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی کہانی نہیں رہی۔ وہ شخص برسوں سے بیروزگار تھا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔

مہنگائی کے اعداد و شمار میں بڑھنے والا ہر ہندسہ ان گنت زندگیوں کو متاثر کرتا ہے، اور ہر معاشی جھٹکا ذہنی صحت کے بحران کا پیش خیمہ ہے۔ مشکل وقت سے گزرنے والوں کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان میں یہ جاننا بھی شامل ہے کہ ہم میں عظیم ترین لوگ بھی ہماری ہی طرح پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید رات کے کسی پہر جب وہ خود کو خاموشی میں تکتے ہوئے پائیں تو کسی مضبوط شخص کی یاد ان کے زخموں پر مرہم رکھنے آجائے۔


یہ مضمون 21 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

حسن کمال وٹو

لکھاری اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے وکیل اور کالم نگار ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: hkwattoo1@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔